تعلیم کا اسلامی تصور

0

عارف محمد خاں
(مترجم: محمد صغیر حسین)

کیا  اسلام علم و آگہی کو دینی اور سیکولر زمروں میں تقسیم کرنے کا موید ہے اور یہ کہ کیا وہ دینی علوم کے مطالعہ کی پاسداری کرتے ہوئے غیردینی مضامین مثلاً سماجی اور فطری علوم کے حصول کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ روزنِ تاریخ سے جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ دسویں صدی میں اشعری تحریک کے ظہور اور پھر عقلیت پسند مکتبۂ فکر(معتزلہ) کی نیست و نابودی کے بعد تقسیم علوم رفتہ رفتہ مورچہ بند ہوگئی اور تب سے مسلم درس گاہیں(مدارس)، روایتی دینی کتابوں کی تعلیم و تدریس میں محصور ہوگئیں۔
جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب ’’اسپرٹ آف اسلام‘‘(Spirit of Islam) میں تحریر کیا ہے کہ ’’سائنس اور فلسفہ کی کھم کھلا ملامت اور فضیحت، نیز یہ عقیدہ کہ دینیات اور شریعت کے علاوہ کوئی علم قابل حصول نہیں ہے، اشعریوں نے مسلمانوں کی پیش رفت روکنے میں دوسرے مسلم شارحین سے کہیں زیادہ منفی رول ادا کیا ہے۔ اور آج تک جہالت، بے علمی اور جمود و تعطل کے لیے ان کی مثال پیش کی جاتی ہے۔‘‘
اس دعوے کی تصدیق، ماقبل دورِاشعری کے سائنسدانوں، فلسفیوں، علم ریاضی کے ماہرین اور مورخین کی شاندار فہرست سے ہوتی ہے۔ کئی مغربی فلسفیوں نے اِن ارباب علم و دانش کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے اور یوروپ کے نشاۃٔ ثانیہ میں اِن ذی علم افراد کے بیش بہا تعاون کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
بلاشبہ، اشعریوں سے پہلے کی صدیوں کی علمی فضا یکسر مختلف تھی۔ اسلامی تعلیمات اور حصول علم و آگہی کے لیے نبوی تاکید و تلقین نے ہنوز نامعلوم و ناشنیدہ موضوعات علم کے لیے نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی۔ اسلام نے دینی اور فطری علوم کے مابین کوئی خط فاصل نہیں کھینچا۔ اس کے برعکس اِس نے علم اور جہل کے مابین فرق کو نمایاں کیا۔ اس نے ارباب دانش سے سوال کیا کہ بتاؤ ’’کیا وہ دونوں برابر ہیں، وہ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟‘‘(39:9)
علم کا اسلامی تصور جامع اور ہمہ گیر تھا۔ مسلمانوں نے دینی اور فطری علوم دونوں کو یکساں جوش و ولولے کے ساتھ حاصل کیا۔ طلب علم کو ہر مسلمان، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، کے لیے نبی کریمؐ نے فریضہ قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’مہد سے لحد  تک علم حاصل کرو‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا کہ ’علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘ یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ساتویں صدی کے ایک عرب کے لیے چین دنیا کے دوسرے چھور پر واقع تھا جہاں جانا سخت مشکل تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ چین حصولِ علوم دینی کا مرکز بھی نہ تھا۔ ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’ایک گھنٹے کا تدبر و تفکر، غوروخوض ستر سال کی عبادت الٰہی سے بہتر ہے۔‘‘
خود قرآن پاک میں 500سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو مؤمنین کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں۔ قرآن پاک اپنے جملوں کے لیے لفظ ’آیت‘ کا استعمال کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جملہ نشانیوں کے لیے بھی اسی لفظ ’آیت‘ کا استعمال کرتا ہے۔ کئی آیاتِ قرآنی میں عبادت اور تفکر کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا ہے۔ ایک جگہ قرآن پاک کہتا ہے:
’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوشمند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہرحال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں۔(وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ’’پروردرگار! یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔‘‘(3:190-191)
ایک دوسرے مقام پر قرآن علم الحیوان(Zoology)، علم الارض (Geology) اور علم طبیعیات(Physics) جیسے مضامین میں دماغ سوزی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کہتا ہے: ’’تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟‘‘(88:17-20)
اسی طرح طیرانیات(aeronautics) کے مطالعے پر بھی زور دیا گیا: ’’کیا لوگ اپنے اوپر اُڑنے والے پرندوں کو پرپھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟‘‘(67:19)
تعلیم کے اسلامی تصور کی بہترین تشریح حضرت علیؓ کے قول زرّیں میں جھلکتی دکھائی پڑتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’تعلیم کے معاملات میں، اپنے بچوں کو اپنی طرح بنانے کی کوشش مت کرو۔ اپنے افکار و خیالات کو اُن کے ذہن و دماغ پر مسلط مت کرو۔ اُن کی مدد کرو تاکہ وہ اپنے دور کے چیلنجز کو قبول کرسکیں کیوں کہ اُن کا دور تمہارے موجودہ دور سے مختلف ہوگا۔‘‘
(صاحب مضمون ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS