محمد حنیف خان
ہندوستان زراعت پر مبنی ملک ہے،ملک کی معیشت میں 16.5کا حصہ صرف زراعت کا ہے۔کورونا وائرس جیسی عالمی وبا میں جب ہر شعبہ زمین دوز ہوگیا اس وقت بھی زراعت کے شعبے میں 3.7کا اضافہ درج کیا گیا،جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہر شعبہ میں کام رک گیا تھا مگر زراعت کا شعبہ اپنا کام کرتا رہا،کسان جی توڑ محنت کرتے رہے،انہوں نے اس دوران بھی فصل اگائی اور اسے بازار تک پہنچایا،ان کی دن رات کی محنت کی وجہ سے ہی اس لاک ڈاؤن میں بھی زندگی تھمی نہیں بلکہ رواں دواں رہی، ذرا سوچئے اگر وہ بھی لاک ڈاؤن کردیتے تو اونچے مکانوں اور اونچی کرسیوں پر بیٹھنے والوں اور ان کے بچوں کا کیا حال ہوتا؟وہ کیا کھا کر زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے؟مگر کسانوں نے ایسا نہیں کیا وہ لاک ڈاؤن میں بھی محنت کرتے رہے مگر اس کے برعکس سرکارنے کیا کیا؟ایک طرف تو اس نے ایسے قوانین کو منظوری دے دی جس کی وجہ سے کسان ایک بار پھر زمینداری کے دور میں پہنچ جائیں گے بس شکل بدلی ہوگی۔اس وقت علاقے کا زمیندار کسانوں کا استحصال کرکے ان کے خون پسینے کی کمائی سے عیش کرتا تھا اور اب یہی عیش بڑی بڑی کمپنیاں کریں گی۔اتنا ہی نہیں حکومت نے لاک ڈاؤن کے درمیان جون میں ایک حکم نامہ کے ذریعہ کسانوں کی پیداوار کو سرمایہ کاروں کے حوالے کردیا تھا جس کو اب قانون بنادیا گیا ہے۔در اصل اس سے کسانوں کی پیداوار نجی ہاتھوں میں نہیں گئی ہے بلکہ کسان پرائیویٹائزیشن کا شکار ہوا ہے، اس کو سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تنہا کسان ہی ان سرمایہ کاروں یا بڑی کمپنیوں کے استحصال کا شکار نہیں ہوگا، بلکہ اس سے سب سے زیادہ نقصان اس غریب عوام کا ہوگا جو لاک ڈاؤن میں اپنا پیشہ اور روزگار چھن جانے کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں اب اس پر مہنگائی کی مار بھی پڑے گی۔
حکومت نے ضروری اشیاء ایکٹ(Essential Commodities Act 1955)میں ترمیم کرتے ہوئے Essential Commodities Act 2020کو منظوری دے دی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان اشیاء کے ذخیرہ کرنے کی حد ختم ہوگئی ہے۔اب ان اشیاء کی جمع خوری اور کالا بازاری پر جیل نہیں ہوگی۔کوئی بھی فرد یا کمپنی اب ان اشیاء کو جتنا چاہے جمع کرسکتے ہیں۔ضروری اشیاء ایکٹ 1955کے ذریعہ حکومت گزشتہ 65برس سے ضروری اشیاء مثلا دال، چاول، تیل، آلو اور پیاز وغیرہ کی قیمتوں اور ان کی سپلائی وغیرہ کے نظام کو قابو کر رہی تھی۔یہ وہ اشیاء ہیں جن کے بغیر انسانی اور تمدنی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے مگر Essential Commodities Act 2020کی منظوری کی وجہ سے اب یہ ضروری اشیاء نہیں رہی ہیں۔اسی لیے ان اشیاء کو ضروری اشیاء کی فہرست سے باہر نکال کر کھلے بازار کے حوالے کردیا گیا ہے۔اب سرکار زرعی پیداوار کی قیمتوں میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔کمپنیاں جس قیمت پر چاہیں کسانوں سے خریدیں اور جس قیمت پر چاہیں عوام کو فروخت کریں، حکومت سے کوئی مطلب نہیں ہے۔چونکہ ان اشیاء کو بازار کے حوالے کرنے کی وجہ سے حکومت اب ایم ایس پی یعنی کم سے کم قیمت بھی متعین نہیں کرسکتی ہے، ایسے میں دعویٰ تو کسانوں کی آمدنی میں اضافے کا کیا جا رہا ہے لیکن اگر کمپنیاں یا سرمایہ کار کسانوں سے کم قیمت پریہ اشیاء خریدیں تو کوئی ان کا کچھ نہیں کرسکتا ہے یعنی کسانوں کو اب سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
سرکار کے تھنک ٹینک ’’نیتی آیوگ‘‘ نے 2017میں زرعی پیداوار کو ضروری اشیاء ایکٹ 1955 کے دائرے سے پوری طرح سے باہر کرنے کی حمایت کی تھی۔اس کا کہنا تھا کہ منظم کاروباری نظام ہونا چاہیے،چند سرمایہ کاروں کا اس شعبہ پر دبدبہ ہونا چاہیے،اس سے زرعی پیداوار کی فراہمی و تقسیم پر آنے والے صرفے میں کمی آئے گی،کاروبار میں اضافہ ہوگا،قیمتوں میں کمی آئے گی اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔’’نیتی آیوگ‘‘کے مطابق ذخیرہ کرنے کی حد میں بار بار تبدیلی سے کاروباریوں کو ذخیرہ اندوزی میں سرمایہ کاری میں فائدہ نظر نہیں آتا ہے،ان اشیاء کی پروسیسنگ پر اس سے منفی اثر پڑتا ہے کیونکہ کاروباریوں کو پروسیسنگ کرنے کے لیے زرعی پیداوار کی زیادہ ذخیرے کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس قانون کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرپاتے تھے لیکن اب وہ جتنا چاہیں گے یہ اشیاء جمع کر سکیں گے۔اس دلیل کے برعکس اس ایکٹ کے نفاذ کی روح پر اگر غور کیا جائے تو وہ کچھ اور کہتی ہے۔اس کے مطابق وہ ضروری اشیاء جن پر امیر و غریب کی زندگی کا دارومدار ہے ہر فرد تک آسانی سے کم قیمت پر پہنچ سکیں،ذخیرہ کرکے بازار میںان اشیاء کی قلت پیدا کرکے ان کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعہ بینک بیلنس میں اضافہ کرنے والے کارو باریوں سے عوام کو محفوظ رکھا جا سکے۔سرکار اس کی قیمتوں کو اپنے قابو میں رکھ کر عوام کو ان جمع خوروںکے استحصال سے بچا سکے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ضروری اشیاء کی فہرست سے ان سبزیوں اور اناج کو باہر نکالنے سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، ان کو پیداوار کی بہتر قیمت مل سکے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر اب کھل کر زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی دکھائے گا۔اس کا کہنا ہے کہ جب ملک میں بھکمری تھی اور باہر سے اناج منگانا مجبوری تھی، اس وقت ان اشیاء کو اس فہرست میں رکھنے کی ضرورت تھی لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب پیداوار کافی بڑھ گئی ہے۔اس قانون کی وجہ سے ہر جگہ ذخیرہ کرنے پر پابندی لگ جاتی تھی جس کی وجہ سے اس شعبے میں نجی سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی تھی، بڑے کولڈ اسٹوریج نہیں بن سکے لیکن اب سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا،دال ترکاری کی فراہمی میں اب آسانی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح دھیرے دھیرے سب چیزیں نجی ہاتھوں میں دی جا رہی ہیں،اس سے عام آدمی پر مہنگائی کی مار پڑے گی۔اگر بڑے پیمانے پر تھوک خریداری یا جمع خوری کی وجہ سے ضروری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا منفی اثر پڑے گا جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں مہنگائی بڑھے گی،جس کے نتیجے میں غریبی میں اضافہ ہوگا۔دوسری طرف کاروباریوں کی تنظیم ’’فورم آف ٹریڈرس آرگنائزیشن ‘‘ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ضروری اشیاء بل میں ترمیم کی وجہ سے بڑے کاروباری اناج، دلہن، تلہن،پیاز اور آلو جیسی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکتے ہیں جس سے ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور عوامی زندگی مہنگائی سے دوچار ہوگی۔اس کے منفی اثر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترمیمی بل پاس ہونے کے محض ایک دن کے اندرپیاز کی قیمت میں 10روپے فی کلو اضافہ ہوگیا،اسی طرح آلو کی قیمتوں میں بھی تیزی آئی ہے۔اب ان اشیاء اور ان کی قیمتوں پر سرکار کا قابو نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ اشیاء دوسری ریاستوں میں بھیجی جا رہی ہیں جبکہ کسان سے ان کی خریداری فصل کی پیداوار کے وقت کی گئی تھی، اس وقت کسان کو جو قیمت ملی تھی اور آج جس قیمت پر یہ اشیاء فروخت ہو رہی ہیں، ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے،اس طرح کسان کو فائدہ ملنے کا دعویٰ بھی خاک میں ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے کیونکہ سارا فائدہ تو جمع خور اور بچولیے اٹھا رہے ہیں،کسان اور عوام کے ہاتھ صرف مہنگائی آ رہی ہے۔
مرکزی حکومت پر وقتاً فوقتاً سرمایہ دارانہ حکومت یا سرمایہ داروں کی حامی حکومت ہونے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے، حالیہ پارلیمانی سیشن میں اس نے زراعت سے متعلق جو بل پیش کیے ہیں، ان کے نتائج دیکھ کر اس پر مہر ثبت ہوتی دکھائی دے رہی ہے،کیونکہ ملک کا کسان اور اس کی کھیتی واحد وہ ذریعہ ہے جس پر اس ملک کی زندگی کا انحصار ہے اور یہ انحصار کوئی نیا نہیں ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی ہماری زندگی کھیتی اور خود کفالت پر منحصر رہی ہے لیکن اب حکومت دعویٰ تو خودکفیل ہونے اور بنانے کا کر رہی ہے لیکن در حقیقت وہ کسانوں اور عوام کی زندگی کی ڈور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں تھما رہی ہے۔اس کو پروسیسنگ اور اس میں در پیش دشواریوں کی تو فکر ہے کیونکہ اس کی نظر میں اس راستے سے اس کو ٹیکس مل سکتا ہے لیکن اس کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ دال، چاول اور آلو پیاز جیسی ضروری اشیاء اور ان کی قیمتیں اگر سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلی گئیں تو کسانوں اور غریب عوام کی زندگی مزید تباہی کا شکار ہوجائے گی کیونکہ کوئی بھی سرمایہ دار اور جمع خور اس لیے نہ تو سرمایہ لگاتا ہے اور نہ ہی جمع خوری کرتا ہے کہ عوام تک مناسب قیمت پر اشیاء کی سپلائی ہو سکے،اس مقصد سے تو عوامی حکومتیں کام کرتی ہیں، ان کا مقصد تو منافع کمانا ہوتا ہے جو کم قیمت پر خریداری اور بڑھی ہوئی من مطابق قیمت پر فروخت سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔اس لیے حکومت کو صرف ایک پہلو پر نظر رکھنے کے بجائے اس بل کے منفی اثرات پر بھی توجہ دینی چاہیے اور عوامی زندگی کو منافع خوروں کے ہاتھوں میں دیے جانے کی ہر سطح پر مخالفت کی جانی چاہیے تاکہ کسان اور عوام دونوں کی زندگی مزید اجیرن بننے سے بچ سکے۔
[email protected]