یوگیندر یادو
دشینت بھائی، دو سال قبل جب آپ سے ایک عوامی تقریب میں چھوٹی سی ملاقات ہوئی تھی، تب آپ نے کہا تھا کہ آپ میری بہت عزت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں اپنے مشورے آپ کو دیتا رہوں۔ اس حق کے ساتھ آج آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ اگر آج ایمانداری سے عوامی طور پر نہیں بولا تو میں اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوں گا۔
یہ خط ہریانہ کے نائب وزیراعلیٰ کے نہیں، چودھری دیوی لال کے پڑپوتے کے نام ہے۔ انیلو اور جے جے پی کی سیاست سے میرے جو بھی اختلافات ہوں، لیکن چودھری دیوی لال کے لیے میرے دل میں عقیدت رہی ہے۔ میں نے انہیں پہلی قلم سے کسانوں کا قرض معاف کرنے کا وعدہ کرتے سنا تھا، اسے پورا کرتے دیکھا تھا۔ نائب وزیراعظم بننے کے بعد بھی کسان کا دکھ سکھ ان کے لیے سب سے ضروری تھا۔ میری طرح لاکھوں کسان کارکنان نے انہیں چودھری چھوٹو رام اور چودھری چرن سنگھ کی روایت کی ایک کڑی کی شکل میں دیکھا ہے۔
آپ کو اس سیاسی وراثت کا حق دار سمجھ کر ہریانہ کے لاکھوں کسانوں نے بی جے پی اور کانگریس کو خارج کرکے آپ کی پارٹی کو ووٹ دیا۔ الیکشن کے بعد جب آپ اسی بی جے پی کے ساتھ کرسی میں بیٹھ گئے تو ان کے دل میں کھٹکا ہوا، ہزاروں کارکنان کو مایوسی ہوئی۔ لیکن آپ نے وعدہ کیا کہ آپ اس کرسی پر کسان کی خاطر بیٹھے ہیں، کسان کے مفادسے کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیںگے، نہیں تو کرسی کو لات مار دیںگے۔ آج جب آپ کے اسی دعوے کا امتحان ہورہا ہے تب کسان سے زیادہ پیاری کرسی نظر آرہی ہے۔
آج ہریانہ کا کسان آپ سے پوچھتا ہے: مرکزی حکومت نے جو تین قانون پاس کیے ہیں، کیا اسے ملک کی کسان تحریک نے کبھی مانگا تھا؟ کیا چودھری صاحب نے کبھی زراعت میں کمپنی راج لانے کی حمایت کی تھی؟ کیا انیلو یا آپ کی پارٹی نے اپنے مینوفیسٹو میں کبھی بھی ان تجاویز کا ذکر کیا تھا؟ اگر یہ قانون کسان کے حق میں ہیں تو حکومت انہیں وبا کے بیچوں و بیچ آرڈیننس کے چور دروازے سے کیوں لائی؟ کیا حکومت نے ان قوانین کو پاس کرنے سے پہلے ایک بھی کسان تنظیم سے رائے مشورہ کیا تھا؟ کیا آپ کی پارٹی سے پوچھا گیا تھا؟ اگر یہ قانون کسان کے بھلے کے لیے ہیں تو ملک کی ایک بھی عوامی حمایت یافتہ کسان تنظیم ان کے حق میں کیوں نہیں کھڑی ہوئی؟ خود بی جے پی اور سنگھ پریوار کی بھارتیہ کسان یونین اور ان کی اتحادی شرومنی اکالی دل اس کی مخالفت کیوں کررہی ہیں؟ اگر جب یہ آرڈیننس آئے اس وقت اکالی دل اور جے جے پی مل کر ان کی مخالفت کرتیں تو کیا بی جے پی کی ہمت تھی کہ وہ ان قوانین کو پاس کرتی؟ ہریانہ کا کسان شرمسار ہوکر پوچھتا ہے کہ جب پورے ملک میں بی جے پی کو ایک بھی کسان لیڈر ان قوانین کی حمایت میں بولنے والا نہیں ملا، اس وقت شی کھنڈی کے کردار میں چودھری دیوی لال کی اولاد کیوں کھڑی ہے؟
چوں کہ ان سوالوں کا جواب نہیں ہے، اس لیے گزشتہ کچھ دن سے آپ بار بار ایک ہی بات دوہرا رہے ہیں کہ ہریانہ کے کسان کی فصل سرکار کے ذریعہ مقررہ ایم ایس پی(منیمم سپورٹ پرائس) پر ہی فروخت ہوگی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصلی سوال اس سال کی ایم ایس پی کا نہیں، ہمیشہ کے لیے کمپنی راج کے خطرے کا ہے۔ اس پر بھی ہریانہ کا کسان آپ سے کچھ سوال پوچھتا ہے: کیا آپ نے بی جے پی حکومت کے ذریعہ طے کی گئی جزوی قیمت کی ڈیڑھ گنی قیمت والے ایم ایس پی کے فارمولہ کو قبول کرلیا ہے؟ کیا آپ کی پارٹی نے سوامی ناتھن کمیشن کے سابقہ قیمت کے ڈیڑھ گنا قیمت کے فارمولہ کا مطالبہ چھوڑ دیا ہے؟ کیا آپ نے مرکزی حکومت کے پرائس کمیشن(CACP) کی تازہ رپورٹ نہیں پڑھی جو گیہوں و چاول کی سرکاری خرید کم کرنے کی بات کرتی ہے؟ یوں بھی اگر دو-تین سال میں سرکاری منڈی ہی ختم ہوجائے گی تو کسان کی ایم ایس پی کہاں ملے گی؟
اگر اس سال کی بات بھی کریں تو کیا آپ نے ہریانہ حکومت کا بیان نہیں پڑھا کہ صرف انہیں کسانوں کی دھان اور باجرے کی فصل ایم ایس پی پر خریدی جائے گی جنہوں نے رجسٹریشن کروایا ہے؟ ’’میری فصل میرا بیورہ‘‘ پورٹل پر رجسٹریشن بند ہونے کے سبب جو کسان رجسٹریشن نہیں کراپائے انہیں ایم ایس پی کیسے ملے گی؟ باجرہ کے کسانوں پر فی ایکڑ آٹھ کوئنٹل کی حد لگی ہونے پر کسان اپنی پوری فصل ایم ایس پی پر کیسے فروخت کریں گے؟ پھل-سبزی کے کسان کا کیا ہوگا، جس کے لیے ایم ایس پی کا اعلان بھی نہیں ہوتا؟ اگر آپ اپنی بات کے پکے ہو تو کم سے کم ہریانہ حکومت لکھ کر گارنٹی کیو ںنہیں دیتی کہ ریاست کے ہر کسان کی فصل کا ایک دانا بھی ایم ایس پی سے نیچے نہیں خریدا جائے گا؟
دشینت بھائی، سچ آپ بھی جانتے ہیں،میں بھی جانتا ہوں، ہریانہ کا ہر کسان جانتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کرسی کا لالچ کسان کے مفاد پر بھاری پڑرہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہر دن آپ کے لیے چودھری دیوی لال کی وراثت پر دعویداری و حق جتانے کا وقت جارہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ کسان اب چوکنا ہیں اور جانتے ہیں کہ کرسی سے چپکنے والے کسان کے خیرخواہ نہیںہوسکتے! سچ یہ ہے کہ اگر آج استعفیٰ دے کر کسان کی حمایت میں نہیں کھڑے ہوئے تو کسان آپ کے منھ سے دیوی لال جی کا نام سننا پسند نہیں کرے گا۔
اس لیے میں بڑے بھائی کے حق سے کہتا ہوں: دشینت، اقتدار کا لالچ چھوڑ کر اپنی روح سے پوچھو کہ اگر آج چودھری دیوی لال جی ہوتے تو کیا کہتے؟ بہت دیر ہوچکی ہے، مگر اب بھی کسان کی آواز، کسان کے رہنما رہے دیوی لال جی کی آواز سن کر نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے کر حکومت سے الگ ہوکر کسان کی حمایت میں کھڑے ہوسکتے ہو ۔ اگر آج کرسی چھوڑنے کی ہمت دکھاؤ گے تو ہوسکتا ہے کل اس ملک کا کسان اس سے بھی بڑی کرسی آپ کو بخش دے گا، نہیں تو ہریانہ کا کسان آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا، آپ خود کو کبھی معاف نہیں کرپاؤگے!
آپ کو آپ کے ہی پردادا جی کی آواز سنانے کے لیے پورے ہریانہ کے کسان 6اکتوبر سے آپ کے گھر کے سامنے ڈیرا ڈالنے آئیں گے۔ میں بھی ان کسانوں کے ساتھ رہو ںگا۔ امید ہے اس سے پہلے ہی آپ ان کی آواز کو سن کر ان کسان مخالف قوانین کی مخالفت میں نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ کو چھوڑ چکے ہوں گے اور کسانوں کے بیچ آکر بیٹھیں گے۔
آپ کا بہی خواہ