ابھیشیک کمار سنگھ
گزشتہ کچھ دہائیوں میں زمین کے ضرورت سے زیادہ استحصال نے شدید تشویش پیدا کردی ہے۔ مطالعات سے علم ہوا ہے کہ زمین ایک سال میں جتنے وسائل پیدا کرتی ہے، انسانی آبادی سات یا آٹھ ماہ میں ہی ان کا استعمال کرلیتی ہے۔ استعمال سے متعلق اندازہ کرنے والی تنظیم گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک(جی ایف این)نے بتایا ہے کہ سال 2020میں استحصال کا اندازہ لگانے والے پیمانے (اوورشوٹ ڈے) میں اس مرتبہ کچھ راحت ملی۔ اس سال یہ دن گزشتہ سال کے مقابلے چوبیس دن دیر سے یعنی 22اگست کو آیا۔ گزشتہ سال یہ دن 29جولائی کو ہی آگیا تھا۔ اس سال اس میں تاخیر کی اہم وجہ یہ رہی ہے کہ کورونا دور میں پوری دنیا کی کاروباری سرگرمیاں بند رہیں، جس سے زمین کے استحصال اور اسے آلودہ کرنے والی سرگرمیاں رک گئیں۔ حالاں کہ یہ کوئی بڑی راحت نہیں ہے، کیوں کہ ابھی بھی انسانی تہذیب زمین پر موجودہ قدرتی وسائل کا 1.75گنا زیادہ تیزی سے استعمال کررہی ہے۔
ماہرین ماحولیات کا ماننا ہے کہ زمین پر صرف انسان کی ترقی کی چاہت کے سبب سال درسال قدرتی وسائل کے استعمال کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔ اس سال یعنی 2020میں 22اگست وہ تاریخ تھی، جب زمین سے انسان کو سالانہ شرح سے ملنے والے پورے وسائل استعمال ہوچکے۔ یعنی اس سال کے باقی سوا چار مہینوں میں انسان اپنی ضرورتوں کے لیے جتنے وسائل کا استحصال زمین سے کرے گا، وہ زمین کے وسائل پیدا کرنے کی سالانہ شرح سے اضافی ہوگا۔ کہا جاسکتا ہے کہ سال کے بچے ہوئے مہینے جو وسائل ہماری ضرورتیں پوری کرنے میں کھپیں گے، وہ ایک طرح سے مستقبل سے لیا جانے والا قرض ہے۔ اصل میں وسائل کی کھپت میں اضافہ اتنا تیز ہوگیا ہے کہ زمین اس کی اتنی ہی رفتار سے تلافی کرنے میں پچھڑنے لگی ہے۔ اسی بات کو زمین کے وسائل کے ضرورت سے زیادہ استحصال کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ اس کا کیلکولیشن 1986سے کیا جارہا ہے اور یہ ہر سال نزدیک آتا جارہا ہے۔ سال 1993میں یہ 21اکتوبر کو آیا تھا، سال 2003میں یہ 22ستمبر کو آیا تھا اور سال 2017میں یہ دن 2اگست کو آیا۔ جنگلات کی کٹائی، مٹی کا کٹاؤ، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی مسلسل بڑھتی سطح اس کے اہم اسباب میں سے ہیں۔ اس سے یہ قابل غور صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ اگر آمدنی اٹھنی اور خرچا روپیا والے حالات ہوں تو زمین پر زندگی آخر کیسے بچے گی!
انسان زمین پر موجود وسائل کا اتنی تیزی سے استعمال کررہا ہے کہ زمین چاہ کر بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتی۔ اس بات سے اصولی طور پر تو ہم سب واقف ہیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ وسائل کے استحصال کے بعد انسان کی ضرورتیں کیسے پوری ہوں۔ جی ایف این کی رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ زمین ہر سال اپنے وسائل کا کتنا حصہ دوبارہ بناسکتی ہے اور انسان اس کی اس صلاحیت سے کتنے زیادہ وسائل ہر سال کھپا دیتا ہے۔ اس اندازہ کا سلسلہ 70کی دہائی سے شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد کچھ ایک ریمیڈیز کو چھوڑ دیں تو سال در سال خلاف ورزی کا یہ دائرہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ سال 1993میں یہ تاریخ21اکتوبر تھی۔ اس تاریخ کو ’’اوورشوٹ ڈے‘‘ کہا گیا۔ تقریباً بیس سال پہلے حال یہ تھا کہ پورے سال کے وسائل کا کوٹا 30ستمبر تک ہی پورا ہوجاتا تھا۔ سال 2003میں اوورشوٹ ڈے کا دن 22ستمبر اندازہ لگایا گیا تھا، جو 2017میں 2اگست تک کھسک آیا۔ اب اس سے بچاؤ کے دو ہی طریقے ہوسکتے ہیں یا تو انسان کسی اور سیارہ پر جاکر رہنے لگے یا پھر اپنی ضرورتوں میں اس طرح کٹوتی کرے کہ یہ زمین وسائل پیدا کرنے کی شرح میں توازن قائم کرسکے۔
انسان اپنی ضرورتوں کے لیے زمین کو اندر باہر سے مسلسل کھوکھلا کرتا جارہا ہے۔ اس کا کوئی بحران خود اس پر جب ٹوٹے گا، تب ٹوٹے گا، لیکن ابھی حالات یہ ہیں کہ اس سے پانی، جنگل اور دوسرے حیوانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ سال 2018میں ورلڈوائلڈلائف فنڈ(ڈبلیو ڈبلیو ایف) اور لندن کی جیولوجیکل سوسائٹی کی رپورٹ ’لیونگ پلینیٹ‘ سے ہوا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ آدھی صدی میں زمین پر آبادی دوگنی ہوچکی ہے، لیکن اسی مدت میں انسانوں نے اپنی ترقی اور مفاد کے لیے زمین کا اس طرح استحصال کیا ہے کہ پانی، جنگل، زمین سے لے کر وسائل پر اس کا قبضہ ہوگیا ہے، جب کہ باقی حیوانات سے ان کی رہائش، کھانا پینا اور ماحول تک چھن گیا ہے۔ یہ رپورٹ تیار کرنے والے 59ماہرین کے گروپ نے اپنے مطالعہ میں مچھلی، پرندوں، دودھ دینے والے مویشی، چرنے والے اور رینگنے والے جانوروں کی الگ الگ تقریباً چار ہزار پرجاتیوں کو شامل کیا تھا۔ یہ مطالعہ کہتا ہے کہ 2010تک حیوانات کے لاپتہ ہونے کا فیصد 48تک تھا،لیکن بعد میں اس میں مزید تیزی آگئی۔ اس کامطلب یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں ہی انسانی لالچ نے زمین پر باقی حیاتیات کے جینے کے ہر وسائل پر یا تو خود قبضہ کرلیا یا وسائل کا اتنا استحصال کرڈالا کہ باقی حیاتیات کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔
زمین کے وسائل پر خرچوں کا حساب لگانے سے پتا چلتا ہے کہ تہذیب کے آغاز میں جیسی زمین انسان کو ملی تھی، اب اس میں بے حساب تبدیلی آگئی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ترقی کے لیے کارخانے لگیں گے، موٹریں چلیں گی، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنیں گے اور عمارتوں کو بنانے میں لوہے-سیمنٹ کی ضرورت پڑے گی تو وسائل پر اثر ضرور پڑے گا۔ لیکن آدھی صدی پہلے حالات یہ تھے کہ وسائل کی کمی زمین خود بخود پوری کردیتی تھی۔ اب یہ تلافی اس لیے نہیں ہوپارہی ہے کیوں کہ وسائل کا استحصال زیادہ تیزی سے ہورہا ہے۔ اسی لالچ کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں تو دوسری طرف دنیا میں پینے کے صاف پانی کی مقدار کم ہورہی ہے۔ جنگلاتی علاقے سکڑ رہے ہیں اور نمی والے علاقوں کا بھی خاتمہ ہورہا ہے۔ وسائل کے انتہائی کمی کے دور کی آہٹ کے ساتھ ہی ہزاروں حیاتیات اور پودوں کی قسموں کے سامنے ہمیشہ کے لیے ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
زمین کے دستیاب وسائل کا ضرورت سے زیادہ استحصال کرنے کے انکشافات حالاں کہ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ کچھ برس پہلے اقوام متحدہ، عالمی بینک اور ورلڈ ریسورسیز انسٹی ٹیوٹ کی مشترکہ حمایت سے 95کروڑ ڈالر کے بھاری بھرکم خرچ سے ایک ہزار 308الگ الگ شعبوں کے ماہرین کی مدد سے ’ملینیم ایکوسسٹم اسیسمنٹ‘ نامی ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی۔ اس میں بھی تقریباً ایسے ہی چیلنجز دیے گئے تھے۔ اس منصوبہ کے سربراہ رابرٹ واٹسن نے رپورٹ کے حوالہ سے کہا تھا کہ یوں تو ہمارا مستقبل ہمارے ہی ہاتھ میں ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا لالچ آنے والی نسلوں کے لیے زمین پر کچھ بھی چھوڑ کر نہیں جانے دے گا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ انسان کا قدرت کے غیرمنصوبہ بند استحصال کے سلسلہ میں یہ دخل اتنا زیادہ ہے کہ زمین گزشتہ پچاس برسوں میں ہی اتنی بدل گئی، جتنی کہ وہ انسانی تاریخ کے کسی دور میں نہیں بدلی تھی۔ آدھی صدی میں ہی زمین کے اندھادھند استحصال کے سبب ماحولیاتی نظام کا دو تہائی حصہ تباہ ہونے کے دہانے پر ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)