ہندوستان نیپال کا پڑوسی ملک ہے اور چین کا بھی نیپال پڑوسی ملک ہے یا اسے اس طرح کہیں کہ ہندوستان اور چین، نیپال کے دو طاقتور پڑوسی ملک ہیں، دونوں سے اس کے تعلقات کی نوعیت الگ رہی ہے۔ ہندوستان سے نیپال کا رشتہ ’روٹی، بیٹی‘ کا رہا ہے، ہندوستان آنے کے لیے نیپالیوں کو اور نیپال جانے کے لیے ہندوستانیوں کو کبھی ویزے، پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑی۔ مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی نیپال ہندوستان کے کافی قریب رہا ہے۔ اس کی کچھ اسی طرح کی نزدیکی چین سے نہیں رہی ہے مگر پچھلے چند مہینوں سے کے پی شرما اولی کی حکومت چین کو خوش اور ہندوستان کو ناراض کرنے والی باتیں کرتی رہی ہے۔ چین میں نیپال کے سفیرمہیندر بہادر پانڈے کی باتوں کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھنا نامناسب نہ ہوگا۔
چینی حکومت کے ترجمان ’گلوبل ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے مہیندر بہادر پانڈے نے چین کو خوش کرنے والی باتوں کے ساتھ ہندوستان اور ہندوستانی میڈیا کی مذمت کرنے کا موقع نہیں گنوایا۔ بہادر پانڈے کا کہنا تھا کہ ہندوستانی میڈیا نیپال اور چین کے رشتوں کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیپالی سفیر نے کہا کہ ’ہندوستانی میڈیا تعصب میں مبتلا ہے یا پھر گمراہ ہے، اس لیے وہ اس طرح کا پروپیگنڈہ اور فرضی خبریں چھاپ رہے ہیں لیکن یہ اصلیت نہیں ہے ۔ چین اور نیپال کا رشتہ فطری اور دوستانہ ہے۔ ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم چین کے ساتھ تعلقات اچھے نہ رکھیں۔ یہ علاقے کا سوال نہیں ہے بلکہ فہم اور ایک دوسرے کی مددکا ہے۔‘ رپورٹ کے مطابق، ’نیپالی سفیر نے نیپال کی زمین پر ہندوستان کے قبضے اور دیگر مسئلوں پر بھی کئی غلط باتیں کہیں۔‘ نیپالی ترجمانوں یا لیڈروں کی طرف سے کہی جانے والی ہند مخالف باتیں اب حیرت زدہ نہیں کرتی ہیں، کیونکہ خود نیپالی وزیراعظم کے پی شرما اولی نے گزشتہ چند مہینوں میں ہندوستان اور نیپال کے تعلقات کو مستحکم بنانے کے لیے کوئی ’کارنامہ‘ انجام نہیں دیا ہے۔ ان کی حکومت نے ایک کے بعد ایک ایسی حرکتیں کی ہیں جس کی توقع نہیں تھی۔ اولی حکومت نے پہلے ہندوستانی علاقوں، کالاپانی، لیپولیکھ اور لمپیا دھورا کو اپنا بتایا۔ اس نے دعوے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے باضابطہ آئینی بل پاس کیا، تاکہ تینوں ہندوستانی علاقوں کو اپنے سیاسی نقشے میں دکھاسکے۔ اس کے بعد 12 جون 2020 کو نیپال آرمڈ فورسز نے فائرنگ کرکے ایک ہندوستانی کی جان لے لی مگر نیپالی حکومت نے معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ 20 جون کو شہریت قانون میں ترمیم کو منظوری دے دی۔ اس ترمیم کو درست ٹھہرانے کے لیے نیپال کے وزیر داخلہ رام بہادر تھاپا نے ہندوستان میں چند ماہ پہلے شہریت قانون میں ہونے والی ترمیم کی مثال دی جبکہ اس مثال کا کوئی جواز نہیں تھا، کیونکہ سی اے اے ، 2019 کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینیوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو شہریت دینے کا التزام ہے، اس قانون سے نیپال کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود رام بہادر تھاپا کے ہندوستان کے شہریت (ترمیمی) قانون، 2019کی مثال دینے کی کوئی تک نہیں تھی مگر کئی نیپالی لیڈران مسلسل اس بات کے ’کوشاں‘ ہیں کہ وہ خود کو ہند مخالف ثابت کر سکیں۔ بات اگر یہ نہیں تو پھر 22 جون 2020 کو ہندوستان کی 500 میٹر زمین پر نیپال کے دعوے کی وجہ کیا تھی؟ کیوں اس نے بہار کے چمپارن میں واقع باندھ کی مرمت رکوادی؟ اور اب چین میں نیپال کے سفیرمہیندر بہادر پانڈے کو ہند مخالف باتیں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
نیپال غلطی کررہا ہے۔ وہ ایک طاقتور پڑوسی کو ناراض کرکے دوسرے طاقتور پڑوسی کو خوش کرنے کی بھول کر رہا ہے۔ ہندوستان سے جب تک اس کا رشتہ ہے، اس کا وجود برقرار ہے، چین، نیپال مخالف اقدام کرتے وقت یہ نظرانداز نہیں کرے گا کہ ہندوستان اس کے ساتھ ہے لیکن جس دن ہندوستان نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا، نیپال اس دن چین کی ایک کالونی بن کر رہ جائے گا۔ وہ دن نیپالیوں کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا اور ہندوستان کے لوگوں کے لیے بھی، کیونکہ چین کے اثرات کا دائرہ ہندوستانی سرحدوں تک بڑھ آنا وطن عزیز کے لیے خدشات میں اضافہ کر دے گا، اس لیے ضرورت یہ سوچنے کی ہے کہ آخر کیوں ایک سے زائد نیپالی لیڈران چین کے دام محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں، انہیں چین کی توسیع پسندی کیوں نظر نہیں آتی؟ کیوں وہ ہندوستان سے نیپال کے صدیوں پرانے رشتے کو بھلا دینے پر تلے ہوئے ہیں؟نیپال ہمارا ایک آئیڈیل پڑوسی رہا ہے، اس لیے اس پر حکمت عملی طے کرتے وقت ماضی سے اس کے رشتوں کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ویسے کئی بار لیڈروں کی تبدیلی بھی دو ملکوں کے رشتوں میں تبدیلی کی وجہ بنتی ہے اور ضروری نہیں کہ نیپال کے سبھی لیڈران کے پی شرما اولی اور ان کے ساتھیوں کے ہی مزاج کے ہوں۔
[email protected]
ہندوستان، نیپال اور چین
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS