ملی خود نگہداری کی کاوش میں چیلنجز

0

ڈاکٹر سید ظفر محمود
(مترجم: محمدصغیر حسین)

سرکاری روزگار اور خاص طور سے سول سروسز میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے، اس کا احساس حکومتوں کو اور سول سوسائٹی کو اب کچھ عرصہ سے ہو گیاہے۔ گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی تک ملت کے تعلیم یافتہ و قابل نوجوانوں میں اس کمی اور اس کے ازالہ کا احساس نہیں تھا۔ لوگ وکیل ڈاکٹر، لیکچرر بننے کو ہی معراج مانتے تھے۔باسلیقہ محنت کر کے مقابلہ میں شرکت کے ذریعہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کا رجحان و رواج نہیں تھا۔پھر1974 میں دہلی سے ایک وفد علی گڑھ گیا جس میں چودھری محمد عارف،چودھری طیب حسین، سید حامد، جنرل شاہ نواز وغیرہ شامل تھے، اﷲانہیں غریق رحمت کرے،پہلے سے وائس چانسلر کی مدد سے مختلف شعبوں کے قابل ترین پوسٹ گریجویٹ طلبا کو کینیڈی ہائوس میں جمع کرکے ان سے طویل و مثبت تبادلہ خیال ہوا جس کے نتیجہ میں ہم طلبا میں جوش بھرگیا اور اس کے بعد کئی برس تک یوپی ایس سی کے سول سروسز نتائج میں ملت سرخرو ہوتی رہی۔ پھر1990کی دہائی میں سید حامد نے ہمدرد فائونڈیشن میں ادارہ ساز کام شروع کرکے سول سروسز میں ہر برس کل منتخب افسران کے ملک گیر شمار میں اضافہ کے باوجود مسلم فیصد کو 2.5 پر برقرار رکھا۔2006 میں جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد پھر ملت کو اپنے اس فریضہ کا احساس ہوا،از سر نو محنت شروع ہوئی اور ملک میں کئی جگہ تعلیمی تنظیموں نے ان کوششوں کو فروغ دینے میں حصہ لیا۔ اب تو حج کمیٹی اوربعض ریاستوں کی سرکاری اردو اکیڈمیاں بھی اس کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔ یہ ساری کوششیں مسلمانوں کو مایوسی اور الگ تھلگ پن سے نکالنے اور مین اسٹریم میں لانے کی قومی پالیسی اور سوچ کا حصہ ہیں اور جامع یعنی سبھی طبقات کی مشترک ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ہیں۔ترقی کے پنچ سالہ منصوبوں میں بھی جامع ترقی کی فکر کے تحت اقلیتوں کی پسماندگی کو مدنظر رکھا جانے لگا ہے۔اس ہمہ جہتی فکر اوران کاوشوں کی بنا پر گزشتہ کچھ سالوں میں سول سروسیز کے امتحان میں ملی شرکت کاتناسب بڑھا ہے اوراسی کی بدولت ان کی کامیابی کی شرح میں بھی کسی قدر اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ ناخوشگوار حقیقت بھی عیاں ہے کہ ملک میں ایک طبقہ ہر میدان میں مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرتے رہنا چاہتا ہے اور ملک کے وسائل میں مسلمانوں کی حصہ داری کوتسلیم نہیں کرپاتاہے۔
خوش آئند پہلو یہ ہے کہ یوپی ایس سی جیسے باوقار دستوری ادارے کو ایک ٹی وی چینل کے ذریعہ مبینہ سازش کا حصہ بتانے پر بہت سارے سابق نوکر شاہ بے چین ہو اٹھے، چنانچہ اس پروگرام کے نشریہ پر پابندی کی مانگ کئی طرف سے اٹھنے لگی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انتظامیہ اور طلبا نے بھی اس کا نوٹس لینے میں دیر نہیں لگائی اور حکومت و عدالت میںاس پر اعتراض داخل کردیے۔ سپریم کورٹ نے 15ستمبر کو اس پروگرام کے نشریہ پر پابندی لگادی اور اسے قابل اعتراض اور ایک فرقہ کو نشانہ بنانے والا پروگرام باور کراتے ہوئے چینل کو اس پروگرام کی آئندہ قسطیں نشر کرنے سے روک دیا۔ لیکن اس پابندی سے پہلے اس پروگرام کی چار قسطیں نشر ہو چکی تھیں جس پر میڈیا کے بڑے حلقے میں شدید تنقید ہوئی اور متعدد اہم افراد نے اسے سماج کو تقسیم کرنے والا پروگرام اور نفرت انگیزی پر مبنی پروپیگنڈا قراردیا۔
اس قابل اعتراض پروگرام پر روک لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک طرف تو چینل کو یہ تاکید کی کہ وہ بتائے کہ اس پروگرام کو قابل نشر بنانے کے لیے وہ اس کی مشمولات اور اس کی نہج و انداز بیان میں کیا تبدیلی کرسکتا ہے اور دوسری طرف حکومت کویہ بتانے کے لیے کہا کہ میڈیا کے ذریعہ نفرت انگیزی کوروکنے کے لیے اس کے پاس کیا نظام ہے؟اس کے جواب میں ٹی وی چینل کی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیاہے، قانون دانوں کی نظر میں وہ بے حد ناکافی ہے اوران کے خیال میں اس پر عدالت کا فیصلہ آئندہ کے لیے ایک اہم نظیر قائم کرنے والا ہوسکتا ہے۔ البتہ حکومت کے وکیل نے 23ستمبر کو سماعت کی شروعات میں ہی عدالت کو بتایا کہ حکومت نے چینل کے پروگرام کو کیبل ٹی وی نیٹ ورک ریگولیشن ایکٹ کی دفعہ20(3) کی رو سے ضابطہ کے خلاف پایا ہے اورچینل کو وجہ بتائو نوٹس جاری کردیا ہے،28 ستمبر تک چینل کو جواب دینا ہے، اطمینان بخش جواب نہ ملنے کی شکل میں حکومت اس پروگرام پر روک لگاسکتی ہے۔تب تک کے لیے حکومت کے سالیسٹرجنرل نے عدالت سے مزید سنوائی موخر کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے قبول کرلیا اور اب 5 اکتوبر کو اس معاملہ کی آگے سماعت ہوگی، تب تک کے لیے پروگرام کے نشریہ پر عدالتی پابندی جاری رہے گی۔اس دوران زیڈ ایف آئی نے اس مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست عدالت سے کی جسے عدالت نے قبول کرلیا اورتنظیم کو اپنا موقف رکھنے کی اجازت دی ہے۔تنظیم اس مقدمے میں اس لیے فریق بننا چاہتی ہے کہ چینل کی طرف سے عدالت میں اس کے خلاف سول سروس کوچنگ پروگرام کے حوالے سے اس کی منشا پر سوال اٹھائے گئے ہیں اور اس تنظیم کے سلسلے میں بے بنیاد الزام تراشی کی گئی ہے۔در یں اثناء ٹی وی پروگرام کی جو چار قسطیں نشرہوئی ہیں، اس کی آخری دوقسطیں تنظیم کے نام کے ذریعہ ملت کو بدنام کرنے والی فرضی باتوں پر مبنی ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں عدالتی اور قانونی چارہ جوئی کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔فریقین کی طرف سے کئی دیگر مداخلتی عرضداشت داخل ہوئی ہیں۔
یاد رہے کہ ٹی وی چینل کی طرف سے کسی شخص نے 26 اگست کو زیڈ ایف آئی کے دفتر کو فون کیااورتنظیم کا انٹرویو لینے کی خواہش ظاہر کی جس کے جواب میں دفتر نے چینل سے گزارش کی کہ وہ اپنے سوالات ای میل کر دے ، لیکن چینل نے کوئی سوال نامہ نہیں بھیجا، غیر سنجیدہ ٹی وی کے متعصب ماحول میں موجود رہنا معیاری تنظیموں کے شایان شان بھی نہیں ہے۔ قومی سلامتی اور ملکی مفاد سے متعلق اگر کوئی اہم معلومات کسی کے پاس موجود ہو تو اس کا قومی فریضہ ہے کہ ان معلومات سے حکومت کے متعلقہ افسران کو فوری طور پر واقف کرائے، نہ کہ اس کا بیجا استعمال کر کے ایک فرقہ کے خلاف ٹی وی پرماحول بنایا جائے اور سول سروسز کوچنگ کے لیے فنڈنگ کو مشکوک کہنے کے لیے خیالی تانے بانے بنائے جائیں،تنظیم کے پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کی سلائڈ کو ویب سائٹ سے کاپی کرکے دھواں دار انداز میں بے سر پیر کی باتیں کی جائیں۔ یہ ساری بیجا لفاظی نوٹ کرلی گئی ہے، جمہوری سماج میں عدالتی عمل کی اہمیت کو ملت خوب سمجھتی ہے اور یہ مانتی ہے کہ شخصی وقار اور اداروں کے اعتبار پر کسی عوامی پلیٹ فارم سے حملہ کرنے کی ناشائستہ حرکتوں کا نوٹس اگر نہیں لیا جائے گا تویہ ملک اور سماج کے نظام کے لیے اچھا نہیں ہوگا،چنانچہ یقینا ملت اپنی اس ذمہ داری کو روبہ کار لانے کا عزم مصمم رکھتی ہے۔چینل کے نشریوں میں عوام کو بہکایا جارہا ہے کہ سول سروسز میں کامیابی کے ذریعہ ’بھارت پر قبضہ کرنے کی سازش ہے ‘حالانکہ اس طرح کے گمراہ کن بہکاوے سے ملت کا حوصلہ بلند تر ہواہے۔یاد رہے کہ سماج کی بھلائی اور انسانیت کے مفاد میں کام کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتاہے۔ پروردگارنے ہم انسانوں کو اس لیے پیدا کیاہے تاکہ ہماری جانچ ہو کہ ہم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے،وہ ہمیں آزماتارہتا ہے کہ ہم اچھے کاموں میں ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں یا مشکل حالات میں ہمارے قدم خدا نخواستہ ڈگمگا جاتے ہیں۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS