اصل فکر چھوٹے کسانوں کی

0

یوگیندر کے الگھ

پارلیمنٹ نے کاشتکاری سے جڑے تین اہم بل پاس کیے ہیں۔ ان میں پہلا بل ہے، ’زرعی پیداوار ٹریڈ اینڈ کامرس(فروغ اور آسانیاں)بل‘، جو کسانوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی فصل مرضی کی جگہ پر فروخت کرسکتے ہیں۔ انہیں فصلوں کی فروخت پر کوئی ٹیکس بھی نہیں دینا ہوگا۔ دوسرا ہے، ’کسان (امپاورمنٹ اینڈپروٹیکشن)پرائس انشورنس اینڈ ایگریکلچرل سروسز ایگریمنٹ بل‘۔ اس میں باقاعدہ کاشتکاری کو بڑھاوا دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اور تیسرا ہے، ’ضروری اشیا ایکٹ 1955میں ترمیمی بل،جس کے تحت خوردنی تیل، دال، آلو، پیازجیسی زرعی پیداواروں کی اسٹوریج کی حد سے جڑی شرائط ختم کردی گئی ہیں۔ اب انتہائی ضروری ہونے پر ہی ان پیداواروں کا اسٹاک کیا جاسکے گا۔ ان تینوں بلوں کو حکومت نے تاریخی اور کسانوں کے مفاد میں بتایا ہے، لیکن پنجاب، ہریانہ، آندھراپردیش، تلنگانہ اور کرناٹک جیسی ریاستوں کے کسان ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ کسانوں کی اس مخالفت کی وجہ سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ملک کے زرعی نظام پر غور کرنا ہوگا۔
جب مانسون اچھا رہتا ہے تو اپنے یہاں خریف کی بوائی خوب ہوتی ہے۔ سرکاری پالیسیاں بھی ان میں معاون ثابت ہوتی ہیں، لیکن چیلنج یہ ہے کہ زرعی پیداوار کو کس طرح بڑھایا جائے اور اسے کیسے اتنا مضبوط بنایا جائے کہ معیشت میں ہونے والی گراوٹ کی تلافی اس سے زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔ حکومتوں کی زیادہ توجہ پرائس سپورٹ پالیسی پر رہتی ہے، لہٰذا منیمم سپورٹ پرائس کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ یہ نظام شمالی مغرب کے کسانوں کے لیے تو اہم ہوسکتا ہے، لیکن باقی ہندوستان کے کسانو ںکو اس سے شاید ہی فائدہ ملتا ہے۔ سرکاری خرید سے متعلق قیمتیں ان کے لیے اب تک غیرمتعلقہ رہی ہیں۔ ہندوستان میں زراعت بازار کا دنیا کا سب سے بڑا سسٹم ہے، لیکن یہ سسٹم تب غیراہم ہوجاتا ہے، جب اس سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے یہاں زرعی پیداواروں کا زیادہ تر کاروبار منڈی کے باہر ہوتا ہے، کیوں کہ منڈی میں سہولتوں کا فقدان ہے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے زرعی پروسیسنگ کے بنیادی ڈھانچے( سپلائی چین) اور بازار کے سسٹم کو چست درست کرنا ہوگا۔
ہندوستانی معیشت جب جب مشکلوں میں پھنسی ہے، زرعی شعبہ نے ہی اسے اصل میں کھاد-پانی دیا ہے۔ آج جب ہمیں کورونا کے ساتھ جینے کے بارے میں سکھایا جارہا ہے، ’نیونارمل‘ کی باتیں کی جارہی ہیں، تب کاشتکاری کو بھی اسی روپ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ تجارت اور ٹرانسپورٹیشن ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ جب کووڈ-19کے سبب لاک ڈاؤن ہوا تو آمدورفت ٹھپ ہوگئی اور کسانوں کو جہاں تہاں اپنی فصلوں کا اسٹوریج کرنا پڑا ہے۔ ریلوے اب تک حسب معمول اپنی خدمات شروع نہیں کرسکا ہے، جب کہ کئی زرعی تجارت میں ٹرانسپورٹیشن کے طور پر ریلوے کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ناسک-ممبئی یا احمدآباد- سورت- ولساڈ کی لوکل ٹرینوں میں سفر کرنے والے روزانہ کے مسافر نہ جانے کتنے دودھ والے اور سبزی-پھل والوں سے متعارف ہوچکے ہوں گے۔ سوچئے، ایسے کسانوں کی حالت ان مہینوں میں کیا ہوئی ہوگی؟ ظاہر ہے، ہمیں اب بدلے ہوئے حالات کے مطابق زرعی پالیسیاں بنانی ہوں گی۔
بہرحال، نئی بلوں کی مخالفت کررہے لوگوں کا ایک جواز یہ ہے کہ اس سے چھوٹی زمین کے کسانوں کو نقصان ہوگا اور پورا فائدہ بڑے کسان اور کاروباریوں کے حصہ میں چلا جائے گا۔ یقینا کسان اپنی فصل کو فروخت کرنے کے لیے لمبا راستہ طے کرتے ہیں۔ چھوٹے گاؤوں کے کسان بڑے گاؤں میں جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ان کی پیداوار شہروں میں پہنچتی ہے۔ کئی ریاستوں میں 10لاکھ سے بھی زیادہ کسان شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ مگر بازار کا جو ڈھانچہ اپنے ملک میں ہے، اس میں انہیں ترجیح نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کاشتکاری میں آمدنی کی کسانوں کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ بیشک حکومتیں کئی طرح کی مدد اور قرض منصوبے لاتی ہیں، لیکن جب تک ان بنیادی مشکلوں کو دور نہیں کرلیا جاتا، جو کسان پہلے سے جھیلتے آرہے ہیں، تب تک ان منصوبوں کا بہت زیادہ فائدہ نہیں مل سکتا۔
واضح ہے، چھوٹے کسانوں اور بے زمین مزدوروں کے بنیادی مسائل کا حل پہلے ہونا چاہیے، اس کے بعد پالیسیاں بننی چاہئیں۔ ایک مثال، گجرات میں سردار سروور کا پانی اب کسانوں کے لیے مشکل کا سبب بن گیا ہے۔ یہاں کے پانی کو 2002میں اہم نہر میں موڑ دیا گیا تھا۔ نتیجتاً گزشتہ ہفتہ ہر چھ میں سے ایک کسان کو پانی نہیں ملا۔
لہٰذا ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہیے کہ چھوٹے، مڈل اوربڑے گاؤں شہروں سے راست جڑسکیں۔ یہ جڑاؤ صرف معاشی انفرااسٹرکچر(سڑک، بازار، بجلی وغیرہ) سے نہ ہو، بلکہ یہ سماجی سطح پر بھی نظر آنا چاہیے۔ ہمیں صرف یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ شہروںمیں رہنے والے لوگوں کی آمدنی بڑھے۔ کسانوں کی آمدنی کس طرح سے بڑے، اس پر سنجیدگی سے غوروخوض کی ضرورت ہے۔
ان سبھی چیلنجز کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ پارلیمنٹ سے پاس ان بلوں کا طویل مدتی ہدف تو اچھا ہے اور یہ اچھے ارادے سے انسپائر ہیں، لیکن ہدف تک پہنچنے کا راستہ فی الحال واضح نہیں ہے۔ اپنے ملک میں منڈی سے ہٹ کر زرعی پیداوار کی خریدو فروخت کے کئی بازار ہیں۔ مگر کسانوں کے پاس فوڈ پروسیسنگ، پہلے مرحلہ کے بنیادی ڈھانچے اور اس سے متعلق سہولتیں نہیں ہیں۔ سرکار کسانوں کو آن لائن تجارت کرنے کی صلاح دے رہی ہے، لیکن اس کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے، جو زیادہ تر چھوٹے کسانوں کے پاس شاید ہی ہو۔ لہٰذا ان سبھی چیلنجز پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے تبھی شاید زیادہ سوالات کے جواب ہمیں ملیں گے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(صاحب مضمون سابق مرکزی وزیر اور گجرات سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS