سرینگر)صریر خالد،ایس این بی):کووِڈ19- کی وبا نے جہاں پوری دنیا میں کئی معمولات و روایات کو بدل دیا ہے وہیں وادیٔ کشمیر میں شادی بیاہ کا طریقہ بھی بدل رہا ہے۔محض پانچ چھ مہینوں میں کا طریقہ اس حد تک بدل گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہوئیں شادیاں جیسے کشمیر میں نہیں بلکہ کہیں اور ہورہی ہیں۔کئی لوگ ’’نئے طریقے‘‘سے ہو رہی شادیوں کو ’’بد مزہ‘‘قرار دیتے ہیں جبکہ کئیوں کیلئے یہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ بہت ساری فضول چیزوں کی چھٹی ہونے سے شادیوں پر آںے والا خرچہ کم ہوکر ایک بہت بڑے سماجی مسئلہ کا علاج ثابت ہوسکتا ہے۔
وادیٔ کشمیر کو جہاں اپنے قدرتی حُسن و جمال ،یہاں کی سیاسی غیر یقینیت اور دیگر کئی چیزوں کی وجہ سے دور دور تک جانا جاتا ہے وہیں یہاں کی تقاریبِ شادہ بیاہ اور اس موقعہ پر مدعو مہمانوں کو کئی پکوانوں کے مجموعہ ’’وازہ وان‘‘کی وجہ سے بھی ایک الگ پہچان حاصل رہی ہے۔ چناچہ یہاں کی شادی کا طریقہ منفرد ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ خاندان کے یہاں بھی شادی کے موقعہ پر تقریباََ تین دنوں تک ہنگامہ خیز سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور بعض اوقات کئی کئی کوئینٹل گوشت پکایا جاتا ہے۔ شادی کے دو دن پہلے ’’ملٗہ مائز‘‘پھر شادی سے ایک دن پہلے ’’ماٗنز رات‘‘(مہندی رات‘‘اور پھر ولیمہ یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہتا ہے اور پھر دو ایک دنوں کے وقفہ کے بعد ’’پھرٗ سال‘‘کے نام کی ایک اور تقریب کہ جب لڑکی ،بعض اوقات درجنوں سُسرالی رشتہ داروں کے ساتھ، میکے آکر یہاں دعوت کھاکر واپس چلی جاتی ہے۔کشمیر میں شادی کے مختصر طور بیان کردہ اس طریقہ اور دھیرے دھیرے بڑھتی آرہی بدعات و رسومات کی وجہ سے سماجی ضرورت ایک مہنگا ’’تماشا‘‘بن چکی تھی۔بعض ماہرین کی مانیں تو کشمیر میں شادی بیاہ ایک صنعت کی طرح ہے۔
حالانکہ مذہبی علماٗ اور بعض دیگر دانشمندوں کی جانب سے کئی بار لوگوں کی توجہ اس جانب دلائے جانے کی کوشش کی گئی کہ شادہ بیاہ کی تقاریب کے بہت مہنگا ہونے کی وجہ سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں غریب گھرانوں کی لڑکیاں شادی بیاہ کی مناسب عمریں پار کرتی جارہی ہیں لیکن رسومات و فضولیات میں کوئی کمی ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ مارچ کے مہینے میں ننگی آنکھ سے نہ دکھائی دینے والے کرونا وائرس نے دنیا کو للکارا۔
ایک طرف لاک ڈاون اور دوسری جانب سرکار کی جانب سے جاری کئے گئے’’ایس او پیز‘‘میں یہ بات بھی شامل تھی کہ شادی بیاہ والے خاندان اپنے یہاں پچاس سے زیادہ مہمانوں کو مدعو نہ کریں۔اتنا ہی نہیں بلکہ شادی بیاہ کی تقریبات کے انعقاد کیلئے ضلع کمشنر کی پیشگی اجازت لازمی قرار پائی اور اسکے ساتھ ہی گویا شادی بیاہ کی صنعت میں زلزلہ آگیا۔
جنوبی کشمیر کی ایک یونیورسٹی میں استاد اسمیٰ اقبال کی شادی اگست کے اوائل میں تب ہوئی کہ جب لاک ڈاون کی وجہ سے سب کچھ تتر بتر تھا۔اسمیٰ کو دکھ ہے کہ وہ اپنی سبھی سہیلیوں کو مدعو نہ کرسکیں جبکہ انکے والدین کو شکوہ ہے کہ وہ سبھی رشتہ داروں اور دوستوں وغیرہ کو نہ بلا سکے۔ انکے والد محمد اقبال کہتے ہیں ’’ہمیں فقط پچاس مہمانوں کو جمع کرنے کی اجازت ملی ہوئی تھی اور پھر جن پچاس کو ہم نے مدعو کیا ان میں سے بھی کئی ایک مارے (کووِڈ-19)خوف کے آئے ہی نہیں،بہت بد مزگی ہوئی‘‘۔انہی کے ایک ایسے رشتہ دار نے ،کہ جو مدعو کئے جانے کے باوجود بھی شادی کی تقریب میں شامل نہیں ہوئے تھے،بتایا ’’ہمیں بھی بُرا لگ رہا ہے کہ ہم نہیں جا پائے لیکن کیا کریں وبا کا ڈر ہے‘‘۔
محمد یٰسین بٹ نامی ایک نوجوان،جو برسوں تک سعودی عرب میں کام کرتے رہے ہیں،کی شادی ستمبر کے اوائل میں ہوئی اور وہ بھی اپنے دوست احباب کو نہ بلاپانے کی وجہ سے مغموم ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’مجھے عمر بھر افسوس رہے گا کہ میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نہ بلا سکا‘‘۔
شادیوں والے گھرانوں میں پکوان بنانے والے باورچیوں ، جنہیں مقامی طور وازہ کہا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ وہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ محمد قیوم نامی ایک وازہ نے بتایا ’’شادیوں کے سیزن میں ہمیں ایک لمحے کی فرصت نہیں ہوتی تھی لیکن ابھی ہم پوری طرح بیکار بیٹھے ہیں۔اس سیزن میں ہم نے فقط چند دنوں کا کام کیا ہے کیونکہ بیشتر تقاریب ملتوی ہوگئیں یا پھر اس حد تک مختصر کہ ہمارا کوئی کام ہی نہ رہا‘‘۔وازہ برادری ہی نہیں بلکہ قصائیوں کا بھی یہی رونا ہے۔تنویر احمد نامی ایک قصائی کا کہنا ہے’’ہم ایک ایک تقریب کیلئے کئی کئی کوئینٹل گوشت فراہم کرتے تھے لیکن اب کے کسی نے پچاس سٹھ کلو سے زیادہ نہیں مانگا،سارا کاروبار تباہ ہوگیا ہے‘‘۔یہی حال شادی بیاہ کی تقاریب میں درکار آنے والے سامان کا کاروبار کرنے والوں کا بھی ہے جو کہتے ہیں کہ انکے یہاں کروڑوں روپے کا مال بیکار پڑا ہوا ہے کیونکہ تقاریب کے مختصر یا ملتوی ہونے کی وجہ سے انکے یہاں خریداری نہیں ہوئی۔
پھر یہ تبدیلی بھی اہم ہے کہ جہاں روایتی طور کشمیری شادیوں میں چار لوگ ترامی کہلائی جانے والی ایک پلیٹ میں مل کر کھاتے تھے وہیں کرونا کے خوف سے مہمانوں نے علیٰحدہ علیٰحدہ کھانے کا نیا ’’رواج‘‘شروع کرایا۔اس سب سے بعض لوگ یہ سوچتے ہوئے خوش ہیں کہ تقاریب مختصر اور سستی ہوجائیں گی تاہم بعض لوگوں کو ملال ہے کہ ایک بہت پُرانی تہذیب و ثقافت کا بڑا حصہ مر گیا ہے۔