بلرام بھارگو/پرشانت ماتھر
(مترجم: محمد صغیرحسین)
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ(ICMR) اور نیشنل سینٹر فار ڈِزیز انفارمیٹکس اینڈ ریسرچ(NCDIR) کی جاری کردہ نیشنل کینسر رجسٹری پروگرام کی اگست 2020رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2020میں ہندوستان میں کینسر معاملوں کی تعداد 13.9لاکھ ہے۔ کئی دہائیوں سے ہندوستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہورہا ہے۔ 2017 کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوا تھا کہ 1990 اور 2016 کے درمیان ہندوستان پر کینسر کا بوجھ 2.6گنا بڑھ گیا اور اس عرصے میں کینسر سے ہونے والی اموات دوگنی ہوگئیں۔
ان کینسر معاملوں میں تقریباً دوتہائی اپنے آخری مرحلے میں ہیں۔ مردوں میں پھیپھڑے، جوف دہن(Oral Cavity)، معدے اور نرخرے(Oesophagus) کے کینسرعام ہیں۔ اس کے برعکس عورتوں میں چھاتی، عنقِ رحم(Cervix)، بیضہ دان(Ovary) اور پتے کی تھیلی (Gall Bladder) کے کینسر عام ہوتے ہیں۔ تقریباً 27% کینسر معاملات تمباکو(ہرشکل میں) سے پیدا ہوتے ہیں۔ تمباکو نوشی کی عادتِ بد کو چھوڑ کر اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ کینسر پیدا کرنے والے دوسرے عوامل میں شراب نوشی، غیرمناسب خوراک، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، موٹاپا اور آلودگی قابل ذکر ہیں۔
کینسر نہ صرف ہلاکت خیز ہوتا ہے بلکہ ایک زبردست سماجی/اقتصادی اثر بھی ڈالتا ہے۔ سماجی ومعاشی ناانصافی سے نمٹنے، معاشی ترقی کو پروان چڑھانے اور دیرپا ترقی کی رفتار تیزتر کرنے کے لیے کینسر کو کم کرنا لازمی شرط ہے۔ کینسر کے علاج میں محض سرمایہ کاری ہی سے کام نہیں چلے گا۔ ہم کو تین اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی: خطرات و خدشات میں تخفیف، پہلے مرحلے میں ہی کینسر کا انکشاف اور منصوبہ بند معالجہ۔
پورے سماج کو باخبر اور بااختیار بنانا
دراصل کینسر، ہوسٹ(نامیاتی ساخت جس میں طفیلی رہتے ہیں) اور ماحولیاتی تعین کنندگان(Determinants) کے تعامل کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے۔ اسی لیے انفرادی سطح پر اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ کم وبیش 50فیصد سے 60فیصد کینسر معاملات سے معلوم عوامل خطرات سے احتیاط برت کر بچا جاسکتاہے۔ سماج کو بااختیار بنانے کے نتیجے میں سرکار، نجی معالجین اور سول سوسائٹی تینوں آپس میں مل کر معلومات صحت میں اضافہ کرسکتے ہیں اور چند ایسی عادتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں جن کے سبب خطرات کے طاقتور عوامل کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح شدہ بیداری اس مرض سے وابستہ کلنک سے بھی بچا سکتی ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم نظام صحت کو مضبوط بنائیں تاکہ اسکریننگ، ٹیکہ کاری، اوّلین مرحلوں میں ہی مرض کے انکشاف اور فوری نیز مقدور علاج تک زیادہ سے زیادہ رسائی ممکن ہوسکے۔
ڈاٹا کی اہمیت
عوامی صحت کے پیش نظر بنائے جانے والے منصوبے بھی بڑے پیمانے کے نتائج کے لیے معقول و مناسب ہوتے ہیں۔ ایسے پروگراموں اور پالیسیوں سے حاصل ہونے والے حل، اعدادوشمار کی روشنی میں نکالے جانے چاہئیں۔ نیشنل کینسر رجسٹری پروگرام کے ذریعہ جمع کی گئی معلومات کو سالوں سے مؤثر طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ اسکریننگ، اولین مراحل میں مرض کا سراغ، ریفرل(Referral)، علاج اور درد کو کم کرنے والی مسکن دواؤں تک رسائی کو بہتر بنایا جاسکے۔ ان اعدادوشمار نے ملک میں کینسر سے متعلق تحقیقات کی بھی خاکہ گری کی ہے جو انسداد کینسر کے سلسلے میں ہماری کوششوں کو سمت و جہت دینے میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ کینسر کو اگر امراض کے ایسے زمرے میں رکھ دیا جائے جن کی اطلاع متعلقہ حکام کو دینا لازمی ہو، تو اس تحقیق کو اور جلا ملے گی، اور درست، مفیدڈاٹا ملنے کے نتیجے میں پالیسی وضع کرنا بہت آسان ہوگا۔
ہندوستان پرعزم ہے کہ اپنے Sustainable Development Goalsکے تحت 2030تک کینسر سے ہونے والی اموات میں ایک تہائی کی تخفیف پر قابو پالے گا، اور ملک نے اس سلسلے میں قابل ذکر کامیابی پائی ہے۔ ہندوستان نے کچھ میدانوں میں مثلاً ذاتی صفائی ستھرائی میں کافی اصلاح کی ہے۔ اکثر وبیشتر ذاتی صفائی ستھرائی نہ ہونے کے دورآئند نتائج کینسر کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سرکاری پروگرام مثلاً آیوش مان بھارت، سوستھ بھارت، سوچھ بھارت ابھیان، پوشٹر ابھیان اور پردھان منتری بھارتیہ جن اوشدھی پری یوجنا اور اقدامات مثلاً FSSAIکے نئے لیبانگ اور ڈسپلے ضابطے اور دواؤں کی قیمتوں پر کنٹرول وغیرہ بین شعبہ جاتی اور کثیرشعبہ جاتی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اقدامات مثلاً قومی صحت پالیسی، قومی تمباکو کنٹرول پروگرام اور کینسر، ذیابیطس، قلب اور شریانوں سے متعلق بیماریوں اور فالج سے بچنے اور ان کو کنٹرول کرنے کے قومی پروگرام بھی ترقی میں ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔
ہمارا طریق کار یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ہم صرف مرض کی تشخیص و علاج کے طریقوں اور ٹیکوں پر ہی اپنی ساری توجہات صرف کرتے رہیں بلکہ منصفانہ حلوں کے لیے فکروعمل کی یکجائی پر زور دیا جانا چاہیے۔ اور یہی طریق کار ملک میں تمام سماجی/معاشی سطحوں پر کینسر کے اثرات کو بڑی حد تک کم کرسکتا ہے۔
(بشکریہ: دی ہندو)
نوٹ: ڈاکٹر بلرام بھارگوICMRکے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ ریسرچ کے سکریٹری بھی ہیں۔ ڈاکٹر پرشانت ماتھرICMR-NCDIRبنگالورو کے ڈائریکٹر ہیں)