جس کا جوان آئینہ خانے میں رہ گیا (حفیظ میرٹھی)

0

چیتن بھگت
(مترجم: محمد صغیرحسین)

ہندوستانی معیشت ایک شدید بحران سے دوچار ہے۔ بالی ووڈ کی سازشوں کو حل کرنے میں پوری تندہی سے منہمک ہندوستانیوں کے نزدیک ہوسکتا ہے معیشت کی حالت زار کم اہمیت رکھتی ہو۔ جی ڈی پی گزشتہ سہ ماہی میں 23.9% گھٹ گئی۔ جی ڈی پی کی یہ سطح مکمل طور پر غیرمتوقع نہ تھی لیکن ہولناک اور فقیدالمثال ضرور ہے۔ یہ بات اہم نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے، کورونا وائرس، بھگوان، حکومت کی پالیسیاں یا ان سارے عوامل کا ایک مجموعہ، یہ سوچنا بے معنی ہے۔ یہ باورچی خانے میں ایک پیالہ دودھ بکھر جانے جیسا ہے۔ ہم پورے دن بحث کرسکتے ہیں کہ دودھ کسی کی ٹھوکر سے گرا، خود سے گرگیا یا پھر یہ کسی بلی کی کارستانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گھر میں اب دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دودھ کا پیالہ پھر سے لبالب بھرجائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری معیشت پھر سے بحال ہوجائے۔
یہ یقین کہ گزشتہ سہ ماہی خلافِ قائدہ تھی اور یہ کہ ایک مضبوط اُچھال اسے بحال کردے گا، کچھ زیادہ ہی رجائیت پسندانہ خیال نظر آتا ہے۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔ تاہم اس خیالِ خام پر یقین نہ کرنے کا ایک سبب ہے۔ نوٹ بندی، ایک اپنی مثال آپ واقعہ جو یوں تو محض دو ماہ تک جاری رہا لیکن اس نے ہندوستانی معیشت کی قوت نمو کو آئندہ کئی سالوں کے لیے شاہ راہِ ترقی سے الگ تھلگ کردیا۔ اسی طرح، جب جی ڈی پی میں کمی آتی ہے تو اس کے نتیجے میں کاروبار ٹھپ ہوتے ہیں، روزگار چھن جاتے ہیں، بینک سے لیے گئے قرض جات کی واپسی نہیں ہوپاتی، امنگیں مرجھاتی اور حوصلے ٹوٹتے ہیں۔ جب کوئی شئے ایک بار ٹوٹ جاتی ہے تو اس کا بحال ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر ہم جبر زندگی پر مبنی عقیدے کہ ’’بھگوان نے یہ مشکل پیدا کی ہے اور بھگوان ہی اس مشکل کو دور کرے گا‘‘ پر بھروسہ کرکے کارگہہ حیات میں عمل سے فارغ ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہیں تو یقین جانئے مشکلات کبھی دور نہ ہوں گی۔ بھگوان نے ہم سب کو ایک دماغ دیا ہے جسے مشکلات کا حل نکالنے کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔
پہلا قدم، مسئلے کا اعتراف ہے۔ چارٹ بناکر یہ دکھانا کہ امریکہ میں وبا کے متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ (یہ کہنا کہ امریکہ وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہے، غلط ہے۔ نہ ایسا تھا اور نہ ایسا ہوسکتا تھا۔ امریکہ میں اس قدر سخت تالہ بندی کبھی نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں امریکہ نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کئی ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں)۔ جسارت کے لیے معذرت خواہی کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم نے دنیا کی سخت ترین اور مشکل ترین تالہ بندی کا جشن منایا تھا(’کمال کردیا‘ کہہ کر دادوتحسین دی گئی تھی) تو یوں سمجھئے کہ جی ڈی پی میں موجودہ گراوٹ اسی جشن کا بل ہے۔ بے شک، بلاشبہ یہ بل بڑا تو ہے۔ اب، ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ہمیں اپنی اوقات کا ادراک و احساس ہونا چاہیے اور دنیا کے امیرترین ملکوں سے مقابلہ آرائی نہیں کرنی چاہیے جو تالہ بندی کے نقصانات کا ازالہ ہم سے کہیں زیادہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اب کووڈمعاملات کی روزافزوں بڑی تعداد بھی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ اس قدر سفاکانہ تالہ بندی غیرضروری تھی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہندو نظریے_ اپنے کوکشٹ دو، بھگوان رحم کرے گا_کی اُپج ہو۔ کشٹ سے اسی محبت کی خاطر ہم نے تالہ بندیوں، کرفیووں اور دوسری نامعقول چیزوں کو کمزور کیا جن کا تعلق عوام سے کم اور بابوؤوں اور آرڈبلیو اے کے صدور سے زیادہ تھا اور جو بیماری سے کہیں زیادہ لوگوں پر رعب جھاڑ کر لطف اندوز ہورہے تھے۔ لیکن یہ سب کام نہ آیا۔
ایک بار مسئلے کا احساس و اعتراف کرلیں تو ہم ہندوستانیوں کو اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک مالدار ملک بننا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک مالدار قوم بننا چاہتے ہیں؟ کیا ہم سپرپاور بننا چاہتے ہیں؟ ایسا کچھ درجن بھر ہوائی جہاز خریدنے، اشتہارات بنانے یا زبردست وطن پرست بننے یا مذہبی نغمات گانے اور گوانے سے حاصل نہ ہوگا۔ یہ سب جعلی، احمقانہ اور بے معنی ہے۔ یہ ساری چیزیں احساس کمتری سے پیدا ہوتی ہیں جو ہندوستانیوں کی ایک پرانی کمزوری ہے۔ ہم ہندوستانی اس بات کے بے حد مشتاق ہوتے ہیں کہ کوئی ہمارے اچھے ہونے کی بار بار تصدیق و توثیق کرتا رہے۔ براہ کرم اس فکر پر لگام لگائیے۔ ہمارا حقیقی مقصد ملک کو متمول بنانا ہے۔ دنیا میں کسی بھی غریب ملک کی عزت نہیں ہوتی خواہ اس کی تاریخ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، خواہ اس کی روایات کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہوں اور اس کے کھانے کتنے ہی لذیذ کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا احترام ہو تو ہندوستان کو مالدار بنانے میں اپنا تعاون دیجیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں معیشت پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور ایسے ہر طرزعمل کی مذمت کرنی چاہیے جو معیشت کے لیے نقصان دہ ہو۔ اس وقت ہمارا عمل اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر ہندو-مسلم مسئلوں سے پیداشدہ بدامنی، درحقیقت، کاروباری جذبے کو تہہ و بالا کردیتی ہے۔ کوئی صحیح الدماغ ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جہاں کے لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں۔ دوسرا مسئلہ حکومت اور اس کے بابوؤوں کی دلی خواہش ہے کہ وہ پالیسی اور قاعدوں و ضابطوں کے ذریعہ ہر کاروبار کو کنٹرول کریں۔ یوگا میں وہ ’چھوڑیں‘ لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حکومت ہند اس لفظ ’چھوڑیں‘ کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آئیے ہم اس طرزفکر اور طرزعمل کو چھوڑدیں۔ معیشت کو پروان چڑھنے دیں۔ کیا آپ سچ مچ ایسا چاہتے ہیں۔
حکومت کو فوری طور پر ایک حقیقی مالی ترغیبی امدادی پیکیج دینا چاہیے۔ ایک غریب ملک کی حیثیت سے کسی بڑے پیکیج کا انتظام تو نہیں کیا جاسکتا، تاہم یہ جس قدر بھی ہے حقیقی ہونا چاہیے۔ یہ شاہ سرخیوں کی زینت بننے والے محض اعدادوشمار نہ ہوں۔
معاشی محاذ پر حکومت سے کام کرانے کے لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ عوام اس سے لاپرواہ نہیں ہیں۔ سردست، ہمارا نوجوان طبقہ جو سب سے زیادہ متاثر ہے، حقیقت میں لاپرواہ ہے۔ ایک پوری نسل بے روزگار یا آدھے ادھورے روزگار والی ہوگی۔ سفیدپوش ملازمین ڈیلیوری بوائزبن جائیں گے(جیسا کہ پہلے سے ہی ہورہا ہے)۔ عام ہندوستانی اور زیادہ غریب ہوجائیں گے اور چند امیروں اور خواص کی خدمت انجام دیں گے۔ 1980کی دہائی والے ہندوستان کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اس کے باوجود نوجوانان اپنے فون میں مصروف و منہمک ہیں، اپنے گھٹیا4Gڈاٹا پیک میں گم ہیں، احمقانہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں، ویڈیو گیمز کھیل رہے ہیں، عریاں اور شہوت انگیز فلموں سے دل بہلا رہے ہیں اور پورے پورے دن سوشل میڈیا پر لوگوں سے لڑجھگڑ رہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں بے کار و بے مصرف ہیں۔ یہ نوجوانوں کو ان کے اپنے اہداف سے توجہ ہٹانے کی زبردست محرک ہیں۔ یہ چیزیں قومی مسائل کی جانب سے بھی توجہ پھیرتی ہیں۔ سستاڈاٹا، ہمارے نوجوانوں کے لیے زہرقاتل ہے جس میں وہ گھنٹوں تک سرکس دیکھتے رہتے ہیں اور سلطنت آگ کے شعلوں میں جل رہی ہوتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانان اپنے فون بند کریں اور اٹھیں۔ اپنے خوابوں، اپنے اہداف، اپنی آرزوؤں پر توجہ دیں اور پیسہ پیدا کریں، تاکہ یہ پیسہ، ہندوستانی معیشت کی بہتری میں معاون ہو۔ انہیں چاہیے کہ وہ متواتر سوالات کرتے رہیں_ آخر اور زیادہ ترقی کیوں نہیں ہوئی؟
ہندوستان کا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ہم چاہیں تو آدھے ادھورے روزگار والے کلرک یا ڈیلیوری بوائز بن سکتے ہیں اور اپنا سارا وقت آپس میں لڑکر گزار سکتے ہیں یا پھر ہم ایک متمول ملک وقوم بن کر دنیا میں عزت و احترام کماسکتے ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے؟
(بشکریہ: ٹائمز آف انڈیا)
(صاحب مضمون شہرئہ آفاق مصنف اور کالم نگار ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS