اسکولوں کی بحالی کا معاملہ: والدین راضی نامہ دینے پر آمادہ نہیں ،ماہر ڈاکٹروں کو بھی خدشہ لاحق!

    0

    ڈاکٹرس ایسوسی ایشن نے سرکار کو خبردار کیا،تعلیمی اداروں کی بحالی کے بعد معمالات بگڑ جانے کا امکان ظاہر!
    سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):جموں کشمیر میں سرکاری انتظامیہ مہینوں سے بند پڑے تعلیمی اداروں کو کھولنے کی تیاریاں کر رہی ہے تاہم والدین مخمصے کا شکار ہیں اور کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔والدین کا کہنا ہے کہ کووِڈ -19کے باقی رہنے تک بچوں کو اسکول بھیجنا انہیں موت کے منھ میں دھکیلنے کے جیسا ہوگا اور وہ اس پر تیار نہیں ہوسکتے ہیں۔
    جموں کشمیر سرکار نے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں  21 ستمبر سے تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کا فیصلہ لیا ہوا ہے اور اس حوالے سے تیاریاں جاری ہیں۔ محکمۂ تعلیم کی نظامت میں ایک سینئر عہدیدار نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ چونکہ تعلیمی ادارے ایک عرصہ سے بند پڑے ہیں اور طلباٗ کی پڑھائی کا بڑا نقصان ہوچکا ہے لہٰذا وہ ان اداروں کو جلد بحال ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پہلے مرحلے پر نصف عملہ اور طلباٗ کے ساتھ اسکول وغیرہ کھولے جائیں گے اور پھر آگے چل کر معمول کی تعلیمی سرگرمیاں بحال کرائی جائیں گی۔
    تعلیمی اداروں کی بحالی کیلئے بنائے گئے منصوبے کے مطابق ایک تو طلباٗ کیلئے اسکولوں میں حاضری رضاکارانہ ہوگی اور انہیں حاضر ہونے یا نہ ہونے کا اختیار ہوگا اور دوسرا جو بھی طلاب اسکول آنے پر آمادہ ہونگے انہیں انکے والدین کا تحری راضی نامہ ساتھ لانا ہوگا۔محکمۂ تعلیم میں حکام کا کہنا ہے ’’یہ بات والدین کے اختیار میں ہے کہ آیا وہ موجودہ حالات میں اپنے بچوں کو اسکول جانے کی اجازت دیں گے یا نہیں لیکن جو کوئی والدین آمادہ ہوں انہیں لکھ کر دینا ہوگا کہ بچے کے انفکشن کا شکار ہونے کی ذمہ داری حکام یا اسکول کی نہیں ہوگی‘‘۔
    وادی میں تاہم بیشتر والدین موجودہ حالات میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ سرینگر کے ایک اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ کی والدہ سید شائستہ نے کہا ’’اس بات سے انکار نہیں ہے کہ بچوں کا کافی وقت ضائع ہوچکا ہے لیکن زندگی سے بڑھکر کچھ بھی نہیں ہے۔ابتداٗ میں جب کرونا وائرس کے کچھ ہی معاملات سامنے آنے لگے تھے سرکار نے اسکول بند کردئے تھے اور ایک زبردست تشہیری مہم کے ذرئعہ والدین کو اپنے بچوں کو باہر جانے کی اجازت نہ دینے پر آمادہ کیا گیا لیکن اب جبکہ روز (کووِڈ 19-کے) ہزاروں معاملات سامنے آرہے ہیں بچوں کو اسکول بلایا جانے لگا ہے،یہ سب نا قابلِ فہم اور عجیب ہے‘‘۔ سرینگر کے ہی ایک ڈاکٹر،جو انکا نام نہ لینے کی شرط پر ہی آمادۂ گفتگو ہوئے،نے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر آمادہ نہ ہونے کی بات بتائی۔ انہوں نے کہا ’’ایک طرف آض بھی ہم لوگوں کو بھیڑ نہ لگانے کی نصیحت دیتے آرہے ہیں اور دوسری جانب بچوں کو اسکول بھیجنے کی تیاریاں،میرے خیال میں ہم بہت زیادہ کنفیوژ ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سرکار اسکولوں میں کتنا بھی احتیاط برتنے کی دعویداری کرے لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکتا ہے کہ بچے احتیاط کر پائیں۔ غلام قادر نامی ایک بزرگ نے تاہم اسکول کھولے جانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ’’اب جبکہ سب کچھ معمول پر آرہا ہے تعلیمی اداروں کو بھی کھولا جانا چاہیئے،بچوں کا بہت وقت ضائع ہوچکا ہے‘‘۔دلچسپ ہے کہ کشمیر میں ڈاکٹروں کی ایک فعال تنظیم ’’ڈاکٹرس ایسوسی ایشن آف کشمیر (ڈی اے کے)‘‘ نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکولوں کی بحالی کووِڈ 19-کی صورتحال کو مزید خراب کرسکتی ہے۔ایک بیان میں ڈی اے کے نے کہا ہے کہ اب جبکہ ایک ساتھ سینکڑوں اور ہزاروں (کووِڈ 19-) معاملات سامنے آرہے ہیں اسکولوں میں بچوں کی بھیڑ لگ جانے سے معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
    محکمۂ تعلیم کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ اگرچہ مرکزی سرکار کی ایماٗ پر انہوں نے 21 ستمبر سے اسکولوں کی بحالی کا ’’تجربہ‘‘ کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ محکمہ خود بھی مخمصے میں ہے۔انہوں نے کہا ’’طلاب بھی ہمارے ہی ہیں،افسر بھی ہم ہی ہیں اور تعلیمی اداروں کا عملہ بھی ہم ہی ہیں،ایک طرف قیمتی وقت برباد ہورہا ہے تو دوسری جانب جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،لیکن ابھی چونکہ کئی دن باقی ہیں دیکھتے ہیں سرکار سے کیا ہدایات ملتی ہیں‘‘۔ قابلِ ذکر ہے کہ مرکزی سرکار نے  29اگست کو 21 ستمبر سے تعلیمی اداروں،جو کووِڈ 19-کے مارچ میں سر اٹھانے کے بعد سے ہی بند پڑے ہیں، کی بحالی کا اعلان کیا تھا ۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS