جینتی لال بھنڈاری
ورلڈ انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیش(ڈبلیو آئی پی او)(World Intellectual Property Organization ) کے ذریعہ جاری (گلوبل انوویشن انڈیکس جی آئی آئی) 2020 میں ہندوستان چار پائیدان اوپر چڑھ کر 48ویں مقام پر پہنچ گیا ہے اور اس نے سرفہرست50میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ ہندوستان گزشتہ سال 2019میں اس انڈیکس میں 52ویں پائیدان پر تھا اور 2015میں 81ویں مقام پر تھا۔ جی آئی آئی انڈیکس میں سوئٹزرلینڈ، سویڈن، امریکہ، برطانیہ اور نیدرلینڈ ٹاپ آرڈر والے ملک ہیں۔ غور طلب ہے کہ مسلسل 10برس سے ہندوستان ورلڈ انوویشن کے شعبہ میں کامیابی حاصل کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ نئے ورلڈ گلوبل انڈیکس کے تحت اس نے کاروباری مہارت، تخلیقی صلاحیت، سیاسی استحکام، حکومت کے تاثر و دیوالیہ پن کے مسئلہ کو سلجھانے میں آسانی جیسے انڈیکٹرس میں اچھے سدھار کیے ہیں۔ ہندوستان میں ڈیجیٹل معیشت، گھریلو کاروبار میں آسانی، اسٹارٹ اپ، غیرملکی سرمایہ کاری جیسے معیارات میں بھی بڑی بہتری نظر آئی ہے۔
کووڈ-19نے سماجی و معاشی ترقی کے لیے ریسرچ اور تکنیکی ترقی کی اہمیت کو بہت تیزی سے آگے بڑھایا ہے۔ پوری دنیا میں صنعت-کاروبار، تعلیم، ہیلتھ ٹیلی میڈیسن و تفریح کے معاملات میں ڈیجیٹلائزیشن تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ تکنیک سے وابستہ نئے نئے کاروباری ماڈل آگے بڑھے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں، جب کورونا وبا کے سبب پوری دنیا میں ریسرچ و انوویشن ایکٹیوٹیز کو مضبوطی ملی ہے، انوویشن میں ہندوستان کا آگے بڑھنا سکون بخش منظرنامہ ہے۔
حقیقت میں جی آئی آئی ایسا گلوبل انڈیکس ہے، جس پر پوری دنیا کے صنعت-کاروبار کی نگاہیں لگی ہوتی ہیں۔ جی آئی آئی کے سبب مختلف ممالک کو پبلک پالیسی بنانے سے لے کر پیداوار میں اضافہ اور ملازمتوں میں اضافہ میں مدد ملتی ہے۔ ہندوستان میں مسلسل انوویشن بڑھنے سے امریکہ، یوروپ اور ایشیائی ممالک کی بڑی بڑی کمپنیاں نئی ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ہندوستانی آئی ٹی ٹیلنٹس کے ذریعہ انوویشن کو بڑھاوا دینے کے لیے ہندوستان میں اپنے گلوبل ان ہاؤس سینٹر(جی آئی سی) تیزی سے بڑھاتی جارہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کووڈ-19کے چیلنجز کے دوران انوویشن کی اپنی بڑھتی ہوئی طاقت سے ملک اور دنیا میں اُبھرتے معاشی مواقع کو اپنی مٹھی میں کرے، تو ہمیں کئی باتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ انوویشن میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ یعنی آر اینڈ ڈی پر خرچ بڑھانا ہوگا۔ ہندوستان میں آراینڈڈی پر خرچ کی رقم جی ڈی پی کی ایک فیصد سے بھی کم، تقریباً 0.7فیصد ہی ہے۔ امریکہ، اسرائیل، جنوبی کوریا، چین اور جاپان جیسے ملک اس میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
ہندوستان میں آر اینڈ ڈی پر جتنی رقم خرچ ہوتی ہے، اس میں انڈسٹری کا تعاون کافی کم ہے، جب کہ امریکہ، اسرائیل، چین سمیت مختلف ممالک میں یہ کافی زیادہ ہے۔ آر اینڈ ڈی پر مناسب سرمایہ کاری کی کمی کے سبب ہندوستانی پروڈکٹس گلوبل ٹریڈ میں تیزی سے آگے نہیں بڑھ پارہے ہیں۔ چوں کہ حکومت کے پاس تحقیق کے اخراجات بڑھانے کے لیے وسائل نہیں ہیں، ایسے میں ہندوستانی کمپنیوں کو آگے آنا ہوگا۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ہمارے ملک کے ٹیلنٹس کے ساتھ ساتھ کووڈ-19کے سبب گھر لوٹتے ٹیلنٹس کی مدد ریسرچ و انوویشن میں لی جائے۔ چین نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں غیرممالک سے چین واپس آئے اپنے طلبا کی مدد سے انوویشن کو مضبوط کیا ہے۔ ہمیں ہندوستانی پروڈکٹس کو مسابقتی بنانے والی معاشی اصلاحات کو رفتار دینی ہوگی۔
ہندوستانی صنعتوں کو عالمی سطح پر اونچائی دینے کے لیے صنعتوں کو نئی ایجادات، دریافت سے واقف کرانے کے مدنظر سی ایس آئی آر، ڈی آر ڈی او اور اسرو جیسے بڑے اداروں کے کردار کو اہم بنانا ہوگا۔ بلاشبہ ابھی ہمیں جی آئی آئی میں 48ویں پائیدان پر پہنچ جانے کی موجودہ سطح سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ریسرچ اور انوویشن میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنی ہوگی۔ ایسا کرنے پر ہی سال 2021میں جی آئی آئی کی نئی انوویشن فہرست میں ہندوستان کی رینکنگ مزید اوپر پہنچے گی۔ جی آئی آئی رینکنگ میں ہندوستان کے اونچائی پر پہنچنے سے ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، عالمی کمپنیوں کا فلو بڑھے گا اور انڈین انڈسٹری بزنس سمیت پوری معیشت فائدہ حاصل کرے گی۔(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار ماہر معاشیات ہے)