پون کے ورما
(مترجم: محمد صغیرحسین)
ہندوفلسفہ، حقیقی اور غیرحقیقی کے مابین ربط کے بارے میں قابل ذکر طور پر گہری نظر رکھنے والا ہے۔ پراثر اَدّویۃ اسکول دعویٰ کرتا ہے کہ حتمی حقیقت برہمن ہے جو نِگُن، ہرجاموجودہ شعورمیں دھڑکنے والا اور ہرشے میں جلوہ گر ہے۔ تاہم اس عملی اور تجرباتی دنیا میں حقیقی کو حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ غیرحقیقی یا واہمہ نے لے لی ہے۔ ایسا مایا کی اعلیٰ ترین قوت کے سبب سے ہوتا ہے۔
آج ہندوستان میں، مایا نے واہموں کو اپنی شعبدے بازی سے حقیقت میں تبدیل کردیا ہے۔ ہماری قومی مباحث پر محض ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری معیشت اس سے زیادہ نازک دور سے کبھی نہیں گزری۔
سرکاری اعدادوشمار تسلیم کرتے ہیں کہ جون سہ ماہی میں معیشت 23.9%تک سکڑ گئی جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ گراوٹ ہے۔ چند ماہرین معاشیات یہ دلیل دیتے ہیں کہ اصل گراوٹ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ گلوبل ریٹنگ ایجنسی فچ(Fitch) نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2020-21میں جی ڈی پی(GDP) نمو 10.5%تک گرجائے گی۔ گولڈمین سیک کو خدشہ ہے کہ یہ سیدھی گراوٹ 14.8%ہوسکتی ہے۔ بہرصورت، وبا سے پہلے کی جی ڈی پی سطح 2022-23سے پہلے بحال ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔
ایسی سنگین صورت حال اور اس میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، دراصل ایک حقیقت ہے جس پر ہمیں غوروفکر اور بحث کرنی چاہیے۔ بے روزگاری فقیدالمثال سطح پر ہے اور کروڑوں کاروباروں کو دیوالیہ ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔ لیکن مایا کی بے حد و بے حساب قوتوں کے زیراثر ہم کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ ہم کو صرف اس بات پر تبادلۂ خیالات کرنا چاہیے کہ سوشانت سنگھ راجپوت نے خودکشی کی تھی یا اُسے قتل کیا گیا تھا۔
عالمی وبا کووڈ-19 کا اثر ایک اور حقیقت ہے۔ اگر 22اگست کو ملک میں 30لاکھ معاملات تھے تو محض ایک پندرہواڑے میں یہ تعداد40لاکھ تک پہنچ گئی اور اس طرح ہم نے برازیل پر سبقت حاصل کرتے ہوئے دنیا میں دوسرا مقام حاصل کرلیا۔ اب ہم50لاکھ پورا کرنے والے ہیں۔ اسپتالوں کا نظام خاص طور پر دیہی علاقوں میں، ناکافی ہے، جانچیں بڑھی ہیں لیکن ابھی عالمی سطح پر سب سے کم ہے، اور کیس کے مثبت ثابت ہونے کی شرح 7%ہے جو تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ وائرس کی دوسری لہر کی بات بھی گردش کررہی ہے۔
اس سنگین صورت حال میں، کوئی بھی شخص یہ توقع کرے گا کہ اس وقت ملک و قوم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہوگا کہ اس بحران سے کس طرح گلوخلاصی حاصل کی جائے۔ لیکن مایا کی غیرمعمولی قوتوں کو کمتر سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ، ہماری اوّلین اور متواتر تشویش یہ ہے کہ ریاچکرورتی مجرم ہیں یا نہیں، اور اگر وہ مجرم ہیں تو اُن کا جرم کیا ہے، قتل عمد، خودکشی کی ترغیب یا منشیات فروشی؟ پورا ملک دو گروہوں میں تقسیم ہوگیا ہے، ایک ریا کے حامیوں کا اور دوسرا اُن کے مخالفین کا۔
ایک تیسری حقیقت بھی ہمارے روبرو ہے اور وہ ہے ہند-چین سرحدوں پر شدید تناؤ۔ اس ضمن میں کئی ایسے سوالات جو جواب اور مذاکرے کے متقاضی ہیں۔ کیا حالیہ تصادم میں چین نے ہندوستانی قلمرو پر قبضہ کرلیا؟ دونوں ملکوں کے درمیان پسپائی پر کیا گفتگو ہوئی؟ ایل اے سی(LAC) پر جاری چینی عسکری تعیناتی کی سطح کیا ہے؟ کیا ہم نے کسی قسم کی جوابی کارروائی کی ہے؟ سفارتی راہیں کیا کیا ہیں؟ پاکستان اور چین کے محاذوں سے ہماری قومی سلامتی کو جو خطرے لاحق ہیں، اُن کے لیے ہم کس قدر تیار ہیں؟
کئی دہائیوں سے ہندوستان اور چین نے سرحد پر اس قدر خطرناک تناؤ نہیں دیکھا۔ یہ نہ صرف ہماری مسلح افواج کے لیے بلکہ تمام شہریوں کے لیے اوّلین تشویش کا مسئلہ ہے لیکن قوم جس موضوع پر بحث و مباحثہ کررہی ہے، وہ قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں بلکہ کنگنارنوت کی وائی پلس سیکورٹی ہے، چینی جارحیت کا مسئلہ نہیں بلکہ اداکارہ کے گھر کو منہدم کردینے کی شیوسینا کی دھمکی ہے۔
آدی شنکر آچاریہ نے کہا ہے مایا ازلی، ابدی اور فطری ہے۔ اس کی طلسماتی قوت کے زیراثر رسی سانپ دِکھتی ہے، سراب دشت، نخلستان نظر آتا ہے۔ بہار میں 70 لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں، وبا کی وجہ سے نظام طب و صحت پاش پاش ہوگیا ہے، بے روزگاری40%سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اسی بہار میں، سیاسی پارٹیاں اعلان کررہی ہیں کہ آئندہ ریاستی انتخابات میں سوشانت سنگھ راجپورت کو انصاف دلانا ایک بڑا موضوع رہے گا۔
مایا، غیرحقیقی شبہات کو حقیقی دکھانے میں مہارت تامہ رکھتی ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ پردھان منتری جی موروں کے ساتھ آرام و اطمینان کے ساتھ لطف و اندوز ہورہے ہیں، من کی بات میں پالتو کتوں کے بارے میں قوم کو بیش بہا مشورے دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کھلونے بنانے کی اہمیت وافادیت پر سیرحاصل روشنی ڈال رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کانگریسی قیادت اگر ایک جانب پارٹی میں موجود اپنے ہی بہی خواہوں کی ملامت کررہی ہے تو دوسری جانب یہ دعویٰ کررہی ہے کہ درون خانہ جمہوریت کی یہ بہترین درخشاں مثال ہے۔ اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سپریم کورٹ ہتک عزت کی پاداش میں پرشانت بھوشن کو سزا دے رہی ہے۔ اور ان آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ڈاکٹر کفیل خاں کو سخت ظالمانہ قومی سلامتی ایکٹ کے تحت ناجائز طور پر محبوس کیا گیا۔ انہیں مہینوں تک جیل میں رکھا گیا۔ اُن کی رہائی تب ملی جب ایک عرصے بعد اُن کی فوری(Urgent) حاضریٔ ملزم رٹ(habeas corpus writ)پر سماعت ہوئی۔
آدی شنکر اچاریہ کا قول زرّیں تھا: علم سچائی اور برہمن دوامی ہے۔ آج ہندوستان میں قول زرّیں یہ ہے: واہمہ سچائی ہے اور مایا دوامی ہے۔ اگر کسی دوسرے سیارے سے کوئی مخلوق سرزمین ہند پر وارد ہو تو اسے یقین آجائے گا کہ ہندوستانیوں کے لیے جو مسئلہ اہم ترین ہے وہ سوشانت سنگھ راجپوت کا ہے۔ مایا کی جیت مکمل ہے۔ عام کہاوت بھی یہی کہتی اور دہراتی ہے: ’’مایا ہے سب مایا ہے‘‘۔
(صاحب مضمون سابق آئی ایف ایس افسر ہیں۔ وہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے مشیر تھے۔ انہیں کابینہ رینک حاصل تھا۔ وہ بعد میں راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ کئی مشہور و معروف کتابوں کے خالق پون کے ورما ایک صاحب طرز ادیب اور کالم نگار ہیں)