سرینگر(صریر خالد،ایس این بی)
شمالی کشمیر کے سوپور میں ایک نوجوان کی پُراسرار اور مبینہ حراستی موت کو لیکر حالات پُر تناؤ ہیں۔علاقے میں سرکاری فورسز کی تعیناتی بڑھادی گئی ہے اور ’’احتیاط کے بطور‘‘ انٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی ہے۔
عرفان احمد ڈار نامی دکاندار کو جموں کشمیر پولس اور سی آر پی ایف کی ایک مشترکہ جمیعت نے 15ستمبر کی رات کو انکے گھر سے گرفتار کر لیا تھا۔ڈار پر جنگجوؤں کے ساتھ روابط رکھنے اور انکی مدد کرنے کا الزام تھا۔چناچہ آج صبح پولس کے ایک ترجمان نے عرفان کے فوت ہونے کی خبر دیتے ہوئے ایک ایسی کہانی پیش کی کہ جسے ڈار خاندان مسترد کرتا ہے۔پولس کا دعویٰ ہے کہ ڈار کی تحویل سے چینی ساخت کے دو دستی بم برآمد کئے گئے ہیں اور جب انہیں رات کے دوران مزید اسلحہ کی نشاندہی کیلئے لیجایا جارہا تھا وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر فرار ہوگئے اور پھر کچھ دور واقع ایک جگہ انکی نعش برآمد ہوگئی۔
ڈار خاندان نے تاہم اس کہانی کو رد کرتے ہوئے پولس پر عرفان کے حراستی قتل کا الزام لگایا ہے۔عرفان کے بھائی جاوید احمد کا دعویٰ ہے کہ انکے بھائی کو اکیلے نہیں بلکہ دونوں بھائیوں کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم انہیں الگ الگ رکھا گیا یہاں تک کہ انہیں ایک دوسرے کی خبر نہ رہ سکی۔انہوں نے کہا کہ بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا تاہم انکے بھائی پولس کی حراست میں ہی تھے یہاں تک کہ ،بقولِ انکے،انکا قتل کردیا گیا۔عرفان کی تحویل سے دستی بموں کی برآمدگی کو سفید جھوٹ قرار دیتے ہوئے جاوید نے چلینج کیا کہ پولس انکے دکاندار بھائی کے خلاف ایک بھی ثبوت پیش کرے۔
عرفان کے ایک رشتہ دار نے کہا کہ مذکورہ ایک عام نوجوان دکاندار تھے جو ہمہ وقت اپنے کام کے ساتھ مشغول دیکھے جاسکتے تھے۔ انہوں نے پولس پر مذکورہ کو قتل کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اپنا جرم چھپانے کیلئے پولس ملی ٹینسی کی آڑ لےنے کی کوشش کر رہی ہے۔عرفان کے ایک پڑوسی نے،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ’’وہ ایک اچھا اور خوش خلق انسان تھے،دکان چلایا کرتے تھے اور سب کے ساتھ بہت اچھے تھے۔ہمیں نہیں لگتا ہے کہ وہ کسی ایسی ویسی سرگرمی کا حصہ رہے ہونگے ‘‘۔
ڈار خاندان میں ہی نہیں بلکہ پورے سوپور میں اس واقعہ کو لیکر صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔غلام قادر نامی ایک بزرگ نے کہا ’’کبھی نوجوانوں پر بندوق رکھنے اور کبھی سنگبازی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اب جب خود سرکاری دعویٰ ہے کہ جنگجوئیت اور سنگبازی کے واقعات تقریباََ ختم ہوچکے ہیں،عام نوجوانوں کیلئے حالات بدلنا باقی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک عام دکاندار کو یوں ختم کردیا گیا ہے اور افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اس واقعہ کی ذإہ داری لینے کی بجائے پولس نے ایک شرمناک کہانی گڑھ لی ہے،یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ مذخورہ نوجوان پولس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجائے اور پھر اسکے ساتھ ہی پُراسرار حالات میں مارا بھی جائے‘‘۔
اس دوران واقعہ کو لیکر بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے کے خدشات سے پریشان سرکاری انتظامیہ نے سوپور میں نہ صرف سرکاری فورسز کی تعیناتی بڑھادی ہے بلکہ علاقے میں انٹرنیٹ کی سروس بھی بند کردی گئی ہے۔