یہ جو لاکھوں کا ساون بیت گیا، اس کا ہرجانہ کون دے گا؟

0

گوتم بھاٹیا
(مترجم:محمد صغیرحسین)

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یکم ستمبر کو ایک حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کفیل خان کو حکومت اترپردیش نے قومی سلامتی ایکٹ(1980) کے تحت غلط طورپر گرفتار کیا تھا۔ بیالیس صفحات کے اس فیصلے میں غلط اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خان کو اُس مواد سے محروم رکھا گیا جس کی بنیاد پر وہ اپنی گرفتاری کے خلاف چارہ جوئی کرسکتے تھے۔ 12دسمبر 2019 کو علی گڑھ میں خان نے جو 23منٹ کی تقریر کی تھی اور جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا، اسے پولیس نے غلط معنی پہنائے۔ مجموعی طور پر اُن کی تقریر کا مقصد نقض امن عامہ یا اختلاف باہمی پیدا کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا منشا قومی اتحاد اور امن کو فروغ دینا تھا۔ مزید برآں خان کو تقریر کے دو ماہ بعد13فروری 2020 کو گرفتار کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے ارادے اور نقض امن عامہ کے خدشات کے مابین کمزور ربط تھا۔
اب جب کہ ہائی کورٹ کے فیصلے نے واضح کردیا ہے، ریاستی سرکار کے پاس خان کو حفظ ماتقدم کے پیش نگاہ قید میں رکھنے اور انہیں آزادی سے محروم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ درحقیقت خان کو ایک دوسرے کیس میں جیسے ہی ضمانت ملی ویسے ہی اُن پر حفظ ماتقدم کے پیش نظر گرفتاری کا آرڈر تعمیل کردیا گیا۔ یہ عمل حکومت کی انتقامی کارروائی کا زبردست عکاس ہے۔ عدلیہ عالیہ کے فیصلے نے کفیل خاں کو آزادی دلادی جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے لیکن اس پہلو پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کہ انہیں حفظ ماتقدم کے پیش نگاہ، بغیر کسی مقدمے کے، کئی ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔
اس ضمن میں، خان کا کیس انوکھا یا منفرد نہیں ہے۔ اس سال کے اوائل میں، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے یہ پایا کہ 5؍اگست 2019 کو آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد گرفتاری کے بہت سے احکامات میرٹ سے خالی تھے اور مسترد کیے جانے کے قابل تھے۔ بارمکرّر، یہ فیصلے تب صادر کیے گئے جب گرفتار شدگان کئی ماہ قید و بند میں گزار چکے تھے۔
متعدد مواقع پر، حکومتیں عدالتی احکام سے اس طرح گریز کرتی ہیں کہ مدت قید پوری ہوتے ہی مقید اشخاص کو جیل میں مزید رکھنے کے لیے نئے الزامات عائد کردیتی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف احتیاطی تحویل تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہندوستانی نظام عدل انتہائی سست رفتار ہے۔ حال ہی میں دہشت گردانہ حملوں کے کئی معاملات میں ملزمین کو 11، 14 اور یہاں تک کہ 23سالوں تک آہنی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد، اس وقت رہائی دی گئی جب حتمی سماعتوں میں حکومت مقدمہ ہار گئی۔
یہ عدل و انصاف کے ایک اہم نکتے کی جانب ہماری توجہ مبذول کرانا ہے۔ اگر کسی شخص کو بغیر کسی معقول جواز کے محبوس کرکے اسے اس کی زندگی کے کئی ماہ و سال سے محروم کردیا گیا ہو تو اسے تلافی مافات کے لیے کسی قسم کا ہرجانہ ضرور دیا جانا چاہیے۔ گیا وقت پھر نہیں ہاتھ آتا، جو ہراسانی ہوئی اس کی تلافی بھی ممکن نہیں، لیکن ہرجانہ اور معاوضہ مظلوم کی اشک شوئی کرسکتا ہے۔
یہ محض عدل و انصاف کا ایک سوال نہیں ہے بلکہ یہ مزاحمت کا بھی سوال ہے۔ حکومت لوگوں کو بغیر کسی معقول جواز کے مدت مدید تک قید و بند میں رکھتی ہے اور پھر بھی بلافکر و تردد آرام و سکون سے رہتی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی بین وجہ یہ ہے کہ حکومت کی ایسی کارروائیوں میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کئی مہینوں یا کئی سالوں کے بعد عدالت اِن قیدیوں کو بے خطا، بے جرم قرار دے کر چھوڑ دیتی ہے۔ بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ حکومت کے ارباب حل و عقد سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا کہ اُن کے غلط اقدامات کے سبب یہ جو لاکھوں کا ساون بیت گیا، اُس کا ہرجانہ کون دے گا۔
چنانچہ خان اور دیگر افراد کے معاملات میں جہاں عدالتوں نے تحویل یا گرفتاری کو مکمل طور پر ناقابل قبول تسلیم کیا، سخت سے سخت ہرجانہ دیے جانے کے لیے قاعدے اور ضابطے بنائے جانے لازمی ہیں۔ شومئی قسمت سے2014میں،دہشت گردانہ حملے کے جھوٹے الزامات کی پاداش میں کئی سال جیل میں گزارنے والے بے خطا محبوسین کے لیے ہرجانے کی آواز جب سپریم کورٹ میں اٹھائی گئی تو عدالت نے ہرجانے کے حق میں پیش کی گئی دلیلوں کو اس بناء پر مسترد کردیا کہ اس سے ایک غلط نظیر قائم ہوگی۔
میں عدالت عظمیٰ سے تمام تر اخراجات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دست بستہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خیال صحیح نہیں ہے اور اس پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ غلط طور پر گرفتاری کے لیے ہرجانہ، عدل و انصاف کا ایک مسئلہ محض نہیں ہے بلکہ ایک ایسی طاقتور حکومت پر روک تھام اور اس سے حساب دہی کے مطالبے کی جانب پہلا قدم ہے جو احتیاطی تحویل سے متعلق قوانین کے مبہم الفاظ اور نظام عدل کی سست گامی کا ناجائز فائدہ مستقل طور پر اٹھاتی ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان ٹائمز)
(صاحب مضمون دہلی مقیم ایک ایڈووکیٹ ہیں۔ ان کے مضامین اکثرو بیشتر اخبارات کی زینت بنتے ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS