تعلیمی پالیسی 2020 کے اغراض و مقاصد

0

ڈاکٹر سید ظفر محمود

قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق تمام انسانی صلاحیتوں کے بہترین استعمال کے ذریعہ منصفانہ معاشرے کو فروغ دینے کے لیے تعلیم ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ معیاری تعلیم تک عوامی رسائی ہندوستان کی مسلسل عروج کی کلید ہے۔ معاشی نمو، معاشرتی مساوات، سائنسی ترقی، قومی انضمام اور ثقافتی تحفظ کے حوالے سے عالمی سطح پر قیادت کے حصول کے لیے اعلیٰ معیاری تعلیم ہمارے ملک کی بھر پورصلاحیتوں اور ترقی کے وسائل کو آگے بڑھانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔توقع ہے کہ اگلی دہائی (2021 سے 2030)تک ہندوستان میں نوجوانوں کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہوگی اور انہیں اعلیٰ معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی ہماری اہلیت ہمارے ملک کا مستقبل طے کرے گی۔تعلیم کے عالمی ایجنڈے کا تعین اقوام متحدہ کے ذریعہ طے شدہ ترقی کے قابل تائید ہدف(Sustainable Development Goal) نمبر4 میں کیا گیا ہے اور اسے ہمارے ملک نے 2015 میں اپنا لیا تھا۔اس کے مطابق2030 تک جامع اور مساوی معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جانا ہے اور سب کے لیے عمر بھر تعلیم حاصل کرتے رہنے کے مواقع کو فروغ دیناہے۔اتنا بلند مقصدحاصل کرنے کے لیے کل نظام تعلیم کی تشکیل نو کی جانی ہے تاکہ 2030کے اہداف (SDGs)کو حاصل کیا جاسکے۔
یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ احاطہ علم کے عالمی منظر میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، مختلف سائنسی اور تکنیکی ترقیات جیسے ضخیم اعداد وشمارکی فراہمی، مشینوں کے ذریعہ حصول تعلیم اور مصنوعی ذہانت(آرٹیفیشل انٹلیجنس)وغیرہ کے مد نظر دنیا بھر میں زیادہ تر غیر ہنرمندانہ ملازمتوں پر مشینوں کا قبضہ ہو تا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہنر مندافرادی قوت (Skilled workforce) کی مانگ میں چوطرفہ اضافہ ہو رہا ہے خصوصاً ریاضی، کمپیوٹر و تجزیہ اعداد کے میدانوں میں اور اگر انھیں سائنس، سماجیات ومطالعہ نوع انسان کے مابین کثیر شعبہ جاتی لیاقت (Multidisciplinary abilities)سے جوڑ دیا جائے تو اس میں چار چاند لگ جاتے ہیںاور اس طرح کے افراد کی کھپت میں اضافہ ہوتا ہی رہنا ہے۔آب وہوا میں تبدیلی، بڑھتی ہوئی آلودگی اور قدرتی وسائل کے تیزی سے گھٹتے ہوئے ذخیروں کی وجہ سے ہمیں توانائی، غذا، پانی، صفائی ستھرائی وغیرہ کی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے جس کے نتیجے میں بھی نئے ہنر سے لیس افراد کی ضرورت ہوگی، خاص طور پر حیاتیات، کیمسٹری، طبیعات، زراعت، آب و ہوا اور سماجی سائنس کے شعبوں سے فارغ التحصیل لوگوں کی۔مقامی و عالمی سطح کے وبائی امراض کے خوفناک ظہورکی روشنی میں ان کی روک تھام، ویکسینوں کی تیاری اورنتیجتاًکثیر الجہت معاشرتی تنائو سے نمٹنے کے مقصد سے عالمی اشتراک پر مشمول نئے تحقیقی پروجیکٹوں کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ ساتھ ہی کیونکہ ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تین بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی طرف رواں دواں ہے، لہٰذا مطالعہ نوع انسان و فنون لطیفہ کے شعبوں سے تعلیم یافتہ افراد کی مانگ بھی بڑھنے والی ہے۔ 
روزگار اورعالمی ماحول میںاس طرح ہونے والے تیزی سے بدلائو کی وجہ سے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ بچوں کو صرف تعلیم کے مواقع ہی فراہم نہیں کیے جائیں بلکہ انھیں علم حاصل کرنے کا طریقہ بھی سکھایا جائے۔ اس لیے تعلیمی نصاب میں اضافہ کے بجائے اس بات پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں ذہنی استعداد بڑھے اوران کی اختراعی سوچ میں اضافہ ہو،مختلف مسائل کے مابین فطری تعامل کوپرکھنے کی اہلیت پیدا ہو، وہ نئی جانکاری حاصل کریں اوربدلتے ہوئے حالات میں اسے استعمال کرکے ایشوز کے حل نکالنے کی کوشش کریں۔یہ بھی ضروری ہے کہ تدریسی کارکردگی لچکدارہو اورجدت،تخلیق اور کثیرالضابطہ پر مبنی ہو، جامع انداز میں دیکھنے اور سمجھنے میں قابل بنانے والی ہو اور طلبا کے لیے تجرباتی، کلیت پر مبنی، مربوط، تفتیش آور، دریافت پذیر، پر لطف اور ان کی زندگی کے سبھی گوشوں اور صلاحیتوںکے یکساں تسلی بخش فروغ کی حامل ہو۔ اس کے لیے نصاب میں سائنس اور ریاضی کے علاوہ بنیادی فنون، دستکاری، کھیل کود اور صحت مندی، لسانیات، ادب وثقافت اور اقدار کو شامل کیا جائے۔تعلیم سے شخصیت سازی ہونی چاہیے، طلبا میں اخلاقیات، ہمدردی و حساسیت پیدا ہونی چاہیے اور ساتھ ہی تعلیم ایسی بھی ہونی چاہیے کہ وہ طلبا کو روزگار کا اہل بنائے۔
تعلیم کے موجودہ و مطلوبہ انجام کے درمیان خلیج کو پر کرنے کی غرض سے تعلیمی نظام میں زبردست اصلاحی کارروائی ہونی چاہیے تا کہ سسٹم میں اعلیٰ ترین معیار، غیرجانبداریت اور دیانتداری جذب ہوجائے اور اس کا خاطرخواہ اثر ابتدائی اسکول سے اعلیٰ سطح تک سرایت کرجائے۔ ہمارا ہدف ایک ایسے تعلیمی نظام کا قیام ہونا چاہیے جس کے رہتے ہندوستان 2040 تک دنیا میں کسی بھی ملک سے پیچھے نہ رہ جائے اورجس میں اعلیٰ ترین تعلیمی لیاقت کے حصول تک ہر شہری کو برابر کی رسائی ملے اور اس روش میں کسی فرد کا سماجی یا اقتصادی پس منظر رکاوٹ نہ بنے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا مقصد ہمارے ملک کے اکیسویں صدی میں بڑھتے ہوئے ترقیاتی تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد ہے ایک ایسے نئے سسٹم کی تخلیق جو ہندوستان کی روایات و ثقافتی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے اکیسویں صدی کی تعلیمی آرزوؤں سے موافقت رکھے جس میں اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی بھی شامل ہیں، اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے تعلیمی ڈھانچہ و اس سے متعلق انتظامیہ،ضابطہ و ہدایات کی تجدید کاری بھی مجوزہ ہے۔ 
یہ پالیسی ہر فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کی بالیدگی پر خصوصی زور دیتے ہوئے اس اصول پر مبنی ہے کہ تعلیم سے نہ صرف بنیادی خواندگی اور عدد شماری کی صلاحیت پیداہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی، مسائل حل کرنے کی صلاحیت اورمعاشرتی، اخلاقی و جذباتی سرشت کی بھی نشوونما ہونی چاہیے۔ قدیم ہندوستانی علم و فکر کی قیمتی وراثت اس پالیسی کے لیے مشعل راہ رہی ہے۔ ہندوستانی فلسفہ میں حصول علم و حکمت اور سچائی کو اعلیٰ مقصد انسانی مانا جاتاتھا۔ زمانہ قدیم میں حصول علم کا مقصد نہ صرف فردکو تعلیم یافتہ بنانا ہوتا تھا بلکہ انسان میں خوداعتمادی و خود مختاری کے عناصر کو مسحورکرنا بھی اس میں شامل تھا۔ اساتذہ کے تذکرے میں پالیسی میں تحریر ہے کہ وہ اگلی نسل کی تشکیل کرتے ہیں،سماج میں سب سے زیادہ قابل احترام اورمایہ ناز اراکین کے طور ان کے معزز مقام کو بحال کر کے انھیں بااختیار بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنا کام مؤثر انداز میں کر سکیں۔وعدہ کیا گیا ہے کہ تمام طلبا و طالبات کو معیاری تعلیم کے مواقع مہیا کیے جائیں گے، ہاںسماج میں حاشیہ پر مقیم، پسماندہ محرومین اورغیر متناسب نمائندگی والے گروپوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے گی۔ تعلیم سے قیام مساوات میں مدد ملتی ہے،سماج میں اقتصادی حرکت پذیری، شمولیت اور مساوات کے قیام کے لیے یہ بہترین آلہ ہے۔ لہٰذاتمام اقدامات کیے جائیں گے کہ مزاحمت کے باوجود ان گروپوں سے تعلق رکھنے والے سبھی طلبا و طالبات تعلیمی سسٹم میں داخل ہوجائیں اور وہاں انھیںکمال دکھانے کے مواقع بھی فراہم ہوں۔ 
[email protected] 
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS