نئی دہلی :سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے خلاف زیر التوا فوجداری مقدمات کے لئے الگ اورخصوصی عدالت قائم کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ ملک میں ممبران پارلیمنٹ واسمبلی کے خلاف 4000 سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت پیر کو اس معاملے میں حکم جاری کرے گی۔ درخواست گزار وکاس سنگھ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی کو سنگین جرم کے معاملات میں کسی بھی قسم کا تحفظ نہیں ملنا چاہئے۔ نیزسپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ یا اسمبلی کو چارج شیٹ کے بعد داغدار ممبران پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 ہفتوں میں جواب طلب کیاہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اب ہمارے پاس اعداد و شمار آگئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس نظام کے لئے کتنی خصوصی عدالتوں کی ضرورت ہوگی؟ عدالت نے کہا کہ ان عدالتوں میں تقرری اور دیگر انتظامات کے لئے ہائی کورٹ ذمہ دار ہوگی۔ تمام ریاستوں کی اعلی عدالتوں کو اس ذمہ داری کو نبھانا ہوگا۔
عدالت کے معاون یعنی جسٹس وجے ہنساریہ نے کہا کہ عدالتوں کی تشکیل کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ مقدمے کی سماعت تیز اور مقررہ وقت کے اندر نمٹانے کا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ استغاثہ کے لئے اس سلسلے میں ہدایات دینے کی ضرورت ہے ،تاکہ ان کی وجہ سے معاملہ طول نہ پکڑے۔ وجے ہنساریہ نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ممبران پارلیمنٹ،ممبران اسمبلی کے خلاف فوجداری مقدمات میںالتوا خصوصی شرائط کے علاوہ نہیں دیا جانا چاہئے۔ ہنساریہ نے کہا کہ ہائی کورٹ ہی نچلی عدالتوں کے ضوابط کا فیصلہ کرے۔ ساتھ ہی گواہوں کے تحفظ کے بھی انتظامات کیے جائیں۔ ہنساریہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ذریعہ گواہوں کے تحفظ کے فیصلے پر فوری طور پر تمام ریاستوں میں عملدرآمد ہونا چاہئے۔جسٹس رمنا نے پوچھا کہ سب سے قدیم زیر التوا کیس کون سا ہے؟ ہنساریہ نے کہا کہ سب سے قدیم کیس 1983 میں پنجاب کا ہے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب کے وکیل پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیس اتنے عرصے سے زیرالتوا کیوں ہے؟ یہ کیس 1983 سے زیر التوا ہے اور آپ کو نہیں معلوم؟ اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ میں ریاستی حکومت سے پتہ کروں گا اور رپورٹ چارٹ دائر کروں گا۔ اس پرکورٹ نے کہا کہ یہ بے انتہا لیٹ لطیفی کیس پر قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کی ناکامی ہے۔ اس لاپرواہی کی وجہ سے اتنی دہائیوں سے اس طرح کے سنگین الزامات والے مقدمات زیر التوارہے۔