دینی مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کے جُزوی بحالی کا اعلان،

    0

    سخت شرائط لاگو،والدین کا راضی نامہ لازمی قرار!
    سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):اب جبکہ مرکزی سرکار لاک ڈاون کو ،تقریباََ، پوری طرح ختم کرنے کے بعد مہینوں سے بند پڑے تعلیمی اداروں کو بحال کرنے کے طریقے وضع کرنے لگی ہے،جموں کشمیر میں اسلامی مدارس اور دارالعلوموں کی نظامت نے بھی تعلیمی سرگرمیوں کی جُزوی بحالی کا فیصلہ لیا ہے۔ ان اسلامی مدارس کی بحالی کیلئے تاہم سخت شرائط وضع کی گئی ہیں جن میں والدین کا تحریری راضی نامہ بھی شامل ہے۔اسکے علاوہ مدارس کی جانب سے فون کے ذرئعہ نئے داخلے دئے جانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
    رابطۂ مدارسِ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیو بند شاخ جموں و کشمیرکے صدر اور جموں کشمیر کی سطح پر سب سے بڑے دارالعلوم (رحیمیہ بانڈی پورہ)مولانا محمد رحمت اللہ قاسمی نے مدارس کیلئے ایک تفصیلی ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے ان مذہبی اداروں میں تعلیمی سرگرمیوں کی جُزوی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 21 ستمبر کو نویں سے بارہویں درجات کے طلباء (جو ہمارے یہاں اعدادی سے سوم عربی تک کے درجات ہیں)کو اسکولوں میں اپنے اساتذہ سے ہدایات حاصل کرنے کی، شرائط کے ساتھ، اجازت دی جائے ۔ اس سلسلے میں ایک اہم ہدایت یہ ہے کہ طلبہ کے والدین کی تحریری منظوریConsent) )لازمی ہے،اس لئے مدرسہ آںے والے ہر طالبِ علم سے اس کے والد یا سرپرست کی تحریر کا تقاضہ کیا جائے‘‘۔
    مولانا رحمت اللہ کا کہنا ہے ’’بعض مدارس میں لاک ڈاون سے قبل امتحانات ہو چکے ہیں ، بعض نے امتحانات آن لائن لے لئے ہیں، ان کے علاوہ جن مدارس کے امتحانات باقی ہیں وہ یا تو داخلہ کے وقت طلباء کا ضمنی امتحان لے لیں تب داخلہ کی کاروائی مکمل کر لیں یا اگر ابھی ممکن ہو تو آن لائن امتحان لے لیں۔کیونکہ نامساعد حالات کے سبب نہ ہی گذشتہ سال بعض جگہ تعلیمی حاضری مکمل ہو سکی ہے اور نہ بعض مدارس میں ششماہی امتحان ممکن ہو سکا ہے۔ اس لئے عمومی طور پر دارالعلوم دیوبند کے فیصلے کی روشنی میں ششماہی امتحان کو سالانہ کے قائم مقام نہیں کیا جا سکا۔ البتہ جن مدارس میں تعلیمی حاضری طالب علم کی پچاس فی صد یا اس سے زائد ہو اور ششماہی امتحان میں بھی شرکت کر کے کامیابی حاصل کر چکا ہو ایسے طالب علم کو اگلے درجہ کے لئے اسی حاضری اور امتحان کے پیش نظر ترقی دی جاسکتی ہے‘‘۔
    مدارس کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ طلاب کا پہلے ہی بہت نقصان ہوا ہے لہٰذا تعلیمی سرگرمیوں کے مزید نقصان کو کم کرنے کیلئے نئے داخلوں کی کارروائی اس حد تک فون پر کی جائے گی کہ طالبِ علموں کے مدارس میں حاضر ہونے پر صرف ان سے دستخط لینے کا مختصر عمل باقی رہے۔
    جموں کشمیر میں یوں تو عصری تعلیم کی جانب لوگوں کا بڑا رجحان ہے اور سرکاری و نجی طور اسکولی تعلیم کا مظبوط نیٹورک قائم ہے تاہم اسکے باوجود سابق ریاست کے طول و عرض میں سینکڑوں چھوٹے بڑے مدارس اور دارالعلوم قائم ہیں جن میں ہزاروں بچے مذہبی اور کسی حد تک عصری تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔کووِڈ  19- کے خوف سے روایتی تعلیمی اداروں کے بند کئے جانے پر مارچ میں یہ مذہبی ادارے بھی بند ہوئے تھے اور ان میں بھی تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS