محمد حنیف خان
رگوں میں دوڑنے والے خون کو پانی بنا کر کسان جب دھوپ میں جلاتا ہے،اپنے وجود کو پگھلاتا ہے،تب کہیں جاکر اعلیٰ عہدوں،اونچی کرسیوں اور آرام دہ مکانوں میں رہنے والوں کا پیٹ بھرتا ہے۔یہ وہ افراد ہیں جن کو اگر ذرا سی لو لگ جائے یا غیر معتدل موسم سے سابقہ پڑجائے تو نہ صرف یہ کہ وہ بیمار ہو جائیں گے بلکہ ان کو علاج و معالجہ کی وہ سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی جن کے بارے میں ایک کسان خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا ہے۔کسان کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ملک کا پیٹ بھرتا ہے،اس کے باوجود اس کا پیٹ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔تغذیہ بخش غذا اس کو نہیں ملتی،علاج و معالجہ کی عدم دستیابی یا پھر اسپتالوں کی لوٹ کھسوٹ سے اس کی جان جا تی ہے۔ننگے بھوکے اس کے بچے رہتے ہیں، تعلیم و تعلّم سے اس کی نسلیں بے بہرہ ہیں لیکن محنت سب سے زیادہ وہی کرتا ہے۔ملک کی پیداوار جی ڈی پی میں زراعت کی 14فیصد حصہ داری ہے جبکہ 42فیصد روزگار بھی یہی شعبہ پیدا کرتا ہے۔پھر بھی وہ تہی داماں،خالی اور ننگے پیر رہتا ہے۔ہندوستان میں کسانوں کو ’’انّ داتا‘‘ کہا جاتا ہے۔یعنی یہ وہ طبقہ ہے جو اناج دے کر سب کی بھوک مٹاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ پورے ملک کو شکم سیر کرکے سب کو پرسکون کرتا ہے مگر اس کی قسمت میں سکون نہیں ہے۔جس کے ایک دو نہیں کئی اسباب ہیں اور سب کا تعلق آخر میں حکومت سے جڑ جاتا ہے۔حکومت اگر واقعی چاہ لے تو ان کسانوں کی زندگی بھی خوشحال ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ جس تندہی سے منصوبوں کی خاکہ سازی کی جاتی ہے، اسی انداز میں ان کو زمینی سطح پر نافذ بھی کیا جا ئے۔کسان کئی طویل مدتی اور قلیل مدتی دونوں طرح کے مسائل سے اس وقت پریشان ہیں۔ بینکوں سے لیے جانے والے قرض ان کی طویل مدتی پریشانیوں میں شامل ہیں جبکہ پیداوار میں کمی،رشوت خوری، کالا بازاری وغیرہ قلیل مدتی پریشانی ہے۔دونوں طرح کی متعدد پریشانیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جن کی وجہ سے کسان خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ ہندوستان میں کسانوں کی خودکشیوں کے متعدد اسباب ہیں۔رپورٹ کے مطابق چٹ فنڈ 15فیصد، عائلی مسائل 13.17فیصد، نان فارم سرگرمی 1.77فیصد، کاشتکاری میں نقصان16.84فیصد،قرض 2.65فیصد، پیداوار کی کم قیمت کی وجہ سے 2.65 فیصد افراد خود کشی کرلیتے ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیور(این سی آر بی ) کی رپورٹ کے مطابق 2019میں10281کسانوں نے خود کشی کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مجموعی طور سے42480 کسانوں اور یومیہ مزدوروں نے خود کشی کی۔گزشتہ برس کے مقابلے 6فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2013کے بعد سے ہر سال زراعت کے شعبے سے وابستہ 12000سے زائد کسان خود کشی کر رہے ہیں۔ 12602 افراد میں سے8007کسانوں اور 4595 زرعی مزدوروں نے 2015کے دوران خودکشی کی۔ یہ ملک میں ہونے والی خود کشیوں 133623میں سے9.4 فیصد ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹر 4291 کے ساتھ سر فہرست ہے۔اس کے بعد کرٹک 1569 ہے۔ تلنگانہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، آندھرا پردیش اور تمل ناڈو میں ہی 87.5فیصد کسانوں نے خود کشی کی ہے۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حکومت کے علم میں ہیںجو کیس رپورٹ نہیں ہوتے ہیں، ان کی تعداد رپورٹ ہونے والے کیس سے کم نہیں ہوتی ہے۔
سر دست کسانوں کی نیندکھاد کی کالابازاری اور ڈیژل کی قیمتوں کی وجہ سے حرام ہے۔اگر ہم محض اتر پردیش کی بات کریں تو آبادی کا 65فیصد کھیتی کسانی سے وابستہ ہے۔ یہاں 165.98ہیکٹیر میں زراعت کی جاتی ہے۔سرکار نے خود یہ تسلیم کیا ہے کہ کسانوں کی محنت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ پیداوار ہورہی ہے۔زمین کی قوت نمو بنائے رکھنے اور اس میں اضافے کے لیے حکومت یوریا، فاسفورس اور پوٹاش کے استعمال پر زور دیتی ہے۔یہ ساری کھادیں کافی مہنگی ہیں،اس کے علاوہ ان کی جب کالا بازاری ہوتی ہے تو اس کی مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ایک طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسانوں کو ان کی پیداوار کی قیمت نہیں مل سکی۔کھیتوں میں ہی ساگ سبزیاں سڑ گئیں اور اگر کسی طرح منڈی پہنچیں تو ان کی قیمت ان کو نہیں مل سکی۔ اب کھاد کی کالا بازاری اور ڈیژل کی قیمت(منافع خوری) ان کی کھال ادھیڑ رہی ہے۔وہ یوریا کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔سرکاری اسٹاک کے سامنے چلچلاتی دھوپ میں وہ قطار میں لگتا ہے، اس کے باوجود کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ اس کو یوریا مل ہی جائے گی۔کوآپریٹیو سمتیوں سے ان کسانوں کو کھاد نہیں مل پاتی جو رجسٹرڈ نہیں ہیں،جبکہ سرکاری دکان مالکان اپنے رشتہ داروں کے نام کھاد درج کرکے اس کی کالا بازاری کرتے ہیں،جس کی وجہ سے 265 میں ملنے والی یوریا 450روپے تک فروخت ہو رہی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح کسانوں کو لوٹا کھسوٹا جا رہا ہے۔کسانوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کے کارکنان بھی ضلع ہیڈ کوارٹرس پر دھرنا و مظاہرہ کر رہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ کالا بازاری پہلی بار ہوئی ہو،جب حکومت کو معلوم ہے کہ ہمیشہ اس طرح ہوتا ہے تو پھروقت سے پہلے وہ بند کیوں نہیں لگاتی ہے؟اگر کسانوں کو وقت پر کھاد نہیں ملے گی تو اس سے ان کی پیداوار بری طرح سے متاثر ہو جائے گی جس کا خمیازہ کسانوں کے ساتھ ہی ملک کو بھی بھگتناپڑے گا۔
ڈیژل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیداوار کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے جس کا بوجھ کسان کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔اس کا اثر صرف آبپاشی پر ہی نہیں پڑتا ہے بلکہ جتائی،بوائی سے لے کر دیگر امور زراعت بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔کھیتی میں مشینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے جو ڈیژل سے ہی چلتی ہیں۔ ایسے میں حکومتیں ڈیژل کی قیمتوں میں کمی کے بجائے مستقل ان میں اضافہ ہی کرتی جا رہی ہیں (تیل کمپنیوں کو قیمت کے تعین میں خود مختاری حکومت نے ہی دی ہے)جس سے ان کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔لاک ڈاؤن میں ڈیژل کی قیمت میں10 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔مارچ میں 64.58روپے میں ڈیژل تھا جو اب بڑھ کر 73.49روپے میںہوچکا ہے جبکہ دھان کی سرکاری قیمت(ایم ایس پی) میں محض 53پیسہ اور گنے کی قیمت میں ایک روپیہ بڑھایا گیا ہے۔سرکار نے 2016-17 میں 4.3فیصد، 2017-18 میں 5.4فیصد، 2018-19 میں 12.9فیصد،2019-20میں 3.71فیصد کا اضافہ کیا تھا جبکہ 2020-21میں سب سے کم محض 2.92فیصد کا اضافہ کیا ہے۔یعنی ایک طرف مہنگائی میں محض آٹھ ماہ میں دس روپے کا اضافہ، دوسری طرف دھان کی ایم ایس پی میں صرف 53پیسے کا اضافہ ہواجو سرکار کے قول و فعل کے تضاد کو واضح کرتا ہے۔کسانوں کی تنظیم بھارتیہ کسان یونین کے مطابق صرف ایک کوئنٹل دھان پر کسانوں کو 715روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گاجبکہ ایک کوئنٹل مکئی پر 580روپے کا نقصان ہوگا۔جوار 631روپے،ارہر میں 3603،مونگ میں 3247،ماش میں 3237،چنا میں 3178روپے کا نقصان ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ جب ہر فصل میں کسانوں کو نقصان ہی ہو رہا ہے تو پھر وہ کھیتی کیوں کرتا ہے یا کیوں کرے؟ اس کا صرف ایک جواب ہے۔زراعت کے ذریعہ وہ کسی طرح کی امید نہیں رکھتا ہے بلکہ زندگی کی گاڑی چلانے یا یوں کہہ لیں کہ زندگی کو بے رمق ہونے سے بچانے کے لیے وہ مجبوراً یہ کام کرتا ہے۔کسانوں کی اکثریت زراعت کو نقصان کا سودا مانتی ہے اور اس کو جوڑ کر بھی بتا دیتی ہے کہ دھان کا بیج وہ چار سو روپے کلو خریدتا ہے،جتائی اور دھان کی روپائی کے قابل کھیت بنانے اور روپائی میں ایک بیگھہ پر کم سے کم 700 سے ایک ہزارروپے خرچ کرتا ہے پھر اس میں کھاد اورتین سے چار بار پانی لگاتا ہے،جس پر تقریباً ایک ہزار روپے سے زیادہ کا خرچ آتا ہے۔کٹائی کے بعد اس میں جب پیداوار دو سے تین کوئنٹل کی ہوتی ہے جس کی سرکاری قیمت 5400روپے کے آس پاس بنتی ہے تو اس کو ملتا کیا ہے ؟خود دیکھ سکتے ہیں مگر چونکہ کھیتی کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے جس سے اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے، اس لیے وہ مجبوراً یہ کام کرتا ہے۔کسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کے پاس اپنے وسائل ہیں مثلاً ٹریکٹر،پمپ سیٹ اور دیگر مشینری وہ تو کسی طرح سے اتنا بچا لیتے ہیں کہ کام چل جائے مگر جو کسان کرائے پر منحصر ہیں، ان کی زندگی حقیقت میں عذاب ہے۔ڈیژل کی قیمتوں اور ایم ایس پی میں اضافے کا اگر غیرجانبداری سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔کیا حکومت کے اس غیر متوازن فیصلے سے 2022تک کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوسکتی ہے؟حکومت کے قدم سے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ آمدنی کو دوگنا کرنے کے بجائے نقصان کی بات کر رہی ہے۔اعلان کرنے کو کیا ہے، حکومتیں بڑی بڑی اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں،جن کے نکات پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ واقعی کسانوں کی اب زندگی بدل جائے گی مگر زمینی حقیقت آج بھی پہلے کی طر ح ہی ہے بلکہ کورونا وائرس نے ان کی حالت کو مزید خراب کردیا ہے۔ جس وقت کسانوں کو راحت کی ضرورت ہے، اس وقت کسان دھان کی سینچائی کے لیے ڈیژل کی قیمت اور کھاد کی کالا بازاری سے پریشان ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک سرکار کھاد کی کالا بازاری روکنے کے ساتھ ڈیژل میں منافع خوری ختم کرکے کسانوںکو کم قیمت پر ڈیژل مہیا نہیں کرائے گی اس وقت تک کسانوں کی آمدنی دوگنی نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ ان کی آمدنی کو دوگنی کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ یہی ہے کہ صرفہ کم کردیا جائے اور پیداوار کی قیمت بڑھا دی جائے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس کے برعکس ہو رہا ہے، اس کے باوجود سرکار دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ 2022تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کردے گی۔کیا ایسے حالات میں ایسا ممکن ہے؟اس طرح کے منصوبے پر عمل طویل مدتی ہوتا ہے،جادو کی چھڑی سے ایسے نتائج نہیں برآمد ہوتے ہیں، اس لیے حکومت کو سنجیدگی سے غور کر کے کسانوں کو راحت دینا چاہیے تاکہ ’انّ داتا‘‘ بھی پرسکون زندگی گزار سکے۔
[email protected]