(ایک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا (غالبؔ

0

محمد ایوب
(مترجم:محمد صغیرحسین)

سوشانت سنگھ راجپوت کیس کے تعلق سے ٹی وی نیوز چینلوں کا جو رویہ ہے وہ اس بات کی اچھی مثال ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے بڑے حصے میں، کس طرح ٹی آر پی بڑھانے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ پیسے کمانے کی ہوڑ خبروں کا انتخاب کراتی ہے۔ متعدد قومی نیوز چینلز اپنا بیشتر وقت ایک ابھرتے ہوئے اداکار کی افسوسناک موت کے بارے میں منظرعام پر آنے والے تنازعات پر صرف کررہے ہیں۔ یہ کام دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ پہلا یہ کہ یہ کیس کے بارے میں ’حقائق پر مبنی‘ مواد پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حقائق کا مأخذ دراصل تازہ ترین صورت حال کے بارے میں وہ کچی پکی اطلاعات ہوتی ہیں جو ان کے اخباری نمائندے اپنے ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ چند مہمانوں کو دعوت مباحثہ دیتے ہیں۔ ان مہمانان گرامی کو زیربحث تمام موضوعات کے ماہرین کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ نام نہاد ماہرین صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ان تجزیہ کاروں کے تبصرے ناقص معلومات پر مبنی ہوتے ہیں یا بالفاظ دیگر یہ حضرات اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔
باعث تشویش یہ ہے کہ کئی چینلوں نے خود کوتفتیشی ایجنسیوں میں بدل لیا ہے اور انہوں نے پولیس، سی بی آئی(Central Bureau of Investigation) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کے رول کو ہتھیا لیا ہے۔ کیس کی غیرمصدقہ تفصیلات دکھانے اور بسااوقات کسی کو صورت حال کے لیے موردالزام قرار دینے میں یہ چینلز ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرتے ہیں۔ خود اُن کے بقول، اُن کی اطلاعات وہاٹس ایپ پیغامات، ٹیلی فون ریکارڈز کی تفصیلات اور ویڈیو ریکارڈنگ سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اس طرح کی شہادتوں کی صداقت کی تصدیق و توثیق کسی موقر اور آزاد تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ چند وہاٹس ایپ میسیجزدوسرے میسیجز کے متضاد ہوتے ہیں۔ اس سے ناظرین تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک پرتشویش مسئلہ
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کچھ چینلز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اس کیس سے متعلق بہت سی معلومات تفتیشی ایجنسیوں مثلاً ای ڈی (Enforcement directorate)سے لے کر سی بی آئی(CBI) سے حاصل ہوئی ہیں۔ حکام کو لازم ہے ان دعووں کی صداقت کی تصدیق کریں۔ اور اگر ان کے دعوے جھوٹے ثابت ہوں تو اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو۔ تاہم، اگر اُن کے دعوے سچ ہوں تو یہ اور بھی تشویشناک بات ہوگی کیوں کہ یہ عمل ہندوستان کی موقر ترین تفتیشی ایجنسیوں کو شدید شکوک و شبہات کے دائرے میں کھڑا کردے گا۔ یہ ایجنسیاں ایک جاری تفتیش کی تفصیلات سے عوام کو باخبر کرنے اور سروس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے لیے موردالزام قرار دی جاسکتی ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے افشائے راز، اگر وہ ہوئے ہوں، تو اُن کی بناء پر کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی اساسی ایجنسیوں کو قانونی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب مبینہ افشاکردہ معلومات، بعد میں ظاہر ہونے والے حقائق سے میل نہ کھاتی ہوں۔
ملک کو درپیش مسائل سے مکمل چشم پوشی
ایسا ہی ایک بڑا جرم جو یہ نیوز چینلز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف سوشانت کی افسوسناک موت کو ایک تماشہ بنارہے ہیں بلکہ اسے قومی اہمیت کا اس قدر بڑامسئلہ بناکر پیش کررہے ہیں کہ ملک کو درپیش گوناگوں شدید مسائل مکمل طور پر ہیچ بنادیے گئے ہیں۔ ان مسئلوں میں عالمی وبا کا مسئلہ بھی شامل ہے جس کے ختم ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں اور کورونا کے مریضوں کی تعداد دن دونی رات چوگنی رفتار سے بڑھتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں عوامی نظام صحت پر ناقابل برداشت بوجھ بڑھ گیا ہے۔ قومی مسئلوں میں وہ شدید معاشی بحران بھی شامل ہے جو کووڈ کے آغاز سے پہلے ہی دستک دے رہا تھا۔ وبا کے پھیلاؤ کے سبب معاشی سرگرمیوں میں تخفیف آئی جس نے معاشی کسادبازاری کو ہوا دے دی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کیس کو نشریات میں غیرمعمولی ترجیح دینے کی ہوڑ میں، تالہ بندی کے عقب میں ہونے والی، کروڑوں مہاجر مزدوروں کی حالت زار سے بھی چشم پوشی کی گئی۔ ہند-چین سرحد پر تناؤ، جس کے بڑھنے اور بڑھ کر ایک شدید عسکری تصادم میں بدل جانے کے قوی امکانات ہیں، اسے بھی بھلا دیا گیا۔
مین اسٹریم الیکٹرانک نیوز میڈیا نے شاید TRPبڑھانے کی چاہت میں، اپنے کوریج میں قومی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر فیصلہ سازی کے شدید فقدان کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ اخلاقی شعور کی کمی کو ظاہر کرتی ہے جس نے ایک افسوسناک موت کو ایک پرشور ڈرامے میں محض اس لیے تبدیل کردیا کہ ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہوجائے اور کچھ دام و درہم بھی جھولی میں آجائیں۔ ابھی تک، سوشل میڈیا پر ہی لوگ اس کے غیرذمہ دارانہ رویے کے سبب طعنہ زن تھے۔ اب اس کیس کے کوریج نے مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا کو بھی سوشل میڈیا کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔
(بشکریہ: دی ہندو)
(صاحب مضمون شعبۂ عالمی روابط، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ ایک ممتاز پروفیسر ایمیریٹس ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS