ابھی لمبا چلے گا یہ تنازع

0

ششانک
سابق خارجہ سکریٹری

ایل اے سی پر چین لگاتار معاہدہ کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ پیر کو ایک بار پھر پیپل لبریشن آرمی کے جوانوں نے مشرقی لداخ میں ہماری ایک فارورڈ پوزیشن کے قریب آنے کی کوشش کی اور جب ہمارے فوجیوں نے انہیں روکا تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ پینگونگ جھیل کے جنوبی کنارے پر ہوئی یہ گولی باری گلوان کی خونی جھڑپ کی اگلی کڑی ہے۔ اس سے قبل 1975میں ایل اے سی پر گولیاں چلی تھیں، جس میں چین کے فوجیوں نے آسام رائفل کے جوانوں پر گھات لگاکر حملہ کیا تھا۔ ان واقعات سے صاف ہے کہ وہ مسلسل ہمیں پرکھ رہا ہے وہ جانچنے کی کوشش کررہا ہے کہ کس حد تک ہم اپنی سرحد کی حفاظت کے لئے مستعد ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ ایل اے سی پر حالات قابو میں کیوں نہیں آرہے ہیں؟ اس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلی وجہ تو چین کی غلط منشاء ہے وہ یہ جانتا ہے کہ ہندوستان امن کا حمایتی ملک ہے اور بات چیت کے ذریعہ ہی ہر ایک مسئلے کو سلجھانے کی خواہش رکھتا ہے۔ 1962میں اس نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ اسی لئے وہ وقت وقت پر سرحد پر اپنی فوج کی سرگرمیاں بڑھاتا رہتا ہے تاکہ ہندوستان کے کچھ اور علاقوں کو اپنے قبضے میں لے سکے۔ واضح رہے کہ سرحد کی حدوں کے تعین کا کام چین کی وجہ سے ہی اب تک نہیں ہوسکا ہے اور اسی وجہ سے وہ ہمارے کئی حصوں کو اب اپنا بتانے لگا ہے۔ 
تازہ گولی باری کی ایک وجہ ’گرے زون‘ میں ہندوستان کی مضبوط ہوتی حالت بھی ہے۔ گرے زون دراصل وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں دونوں ملکوں کے فوجی پٹرولنگ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے آتے رہتے ہیں۔ لداخ کے اسی علاقے میں 1962میں چین نے حماقت کی تھی، تب سے کم و بیش یہاں اسی کا دخل زیادہ رہا ہے۔ لیکن اسپیشل فرنٹیئر فورس کی گزشتہ کارروائی کے بعد ہماری حالت یہاں مضبوط ہوئی ہے۔ چین اسی وجہ سے خار کھارہا ہے وہ کسی نہ کسی طرح حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ان علاقوں پر اپنا قبضہ چاہتا ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ شاید بھول رہا ہے کہ آج کا ہندوستان 1962 کے دور سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ 
چین کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا ہے کہ ہندوستان اب دفاعی کے ساتھ ساتھ اقدامی رد عمل کیوں ظاہر کرنے لگا ہے؟ وہ بیشک یہ دعویٰ کرے کہ امریکہ کی شہہ پر ہندوستان جواب دینے لگا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان نے اپنی چین پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ سب سے پہلے تو اس پر معاشی انحصار کم کیا گیا پھر فوجی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے اصل کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر پٹرولنگ کرنے والے جوانوں کو یہ پاور دے دیا گیا کہ وہ خود کی حفاظت میں گولی چلا سکتے ہیں۔ ان سب سے چین کو دوطرفہ چوٹ پہنچی ہے۔ معاشی انحصار کم ہونے سے جہاں ہندوستانی بازار پر قبضہ کرنے اور اس بنا پر مستقبل میں مول بھائو کرنے کی اس کی اسکیم پر پانی پھر گیا ہے تو جوانوں کو اپنی حفاظت میں گولی چلانے کی اجازت ملنے سے ہمارے فوجیوں کی ہمت افزائی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ پہلے اسی ایک پالیسی کی وجہ سے چین ہماری فوج کو کمتر سمجھتا تھا۔
پڑوسی ملک کے ذریعہ لگاتار کی جارہی اکسانے والی کارروائی کے باوجود ہندوستان نے جس طرح سے جواب دیتے ہوئے بھی صبر دکھایا ہے وہ کئی معنوں میں ہمارے مفاد میں ہے۔ اس سے بیجنگ کو یہ سبق ملا ہے کہ بیشک سرحد کا تعین نہ ہونے سے وہ سرحدی علاقوں میں مستقل طور پر کوئی ڈھانچہ نہ کھڑا کرے لیکن جب تک ایسی حالت بحال نہیں کی جائے گی تب تک ہندوستانی فوج پیچھے نہیں ہٹے گی البتہ جیسے کو تیسے کا جواب اسے دیا جائے گا یہ اس کے لئے غیر متوقع ہے۔ ہندوستانی فوج کو یہ اشارہ دیا جاچکا ہے کہ اس کے ہاتھ اب کھلے رکھے جائیں گے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے اس کے مسائل پر خاص طور سے غور کیا گیا ہے اور انہیں دور کیا جارہا ہے۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کھلے عام یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر فوجی اور ڈپلومیٹک سطح پر بات چیت ناکام ہوتی ہے تو چینی فوج کے قبضے کو روکنے کے لئے فوجی متبادل بھی آزمایا جاسکتا ہے۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ ہندوستان فوجی حل نکالنے کے بھی قابل ہے۔ 
ہندوستان کی جوابی کارروائی کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہماری حکومت ’اینٹی گریٹڈ رسپانس‘ کی پالیسی پر آگے بڑھ رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کے ساتھ ٹکرائو کو روکنے کے لئے فوجی،  سیاسی اور سفارتی ہر سطح پر یکساں طور پر آگے بڑھاجائے گا۔ 10ستمبر کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ایس جے شنکر اور وانگ یی کے درمیان ہونے والی ممکنہ ملاقات بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ نئی دہلی بات چیت سے ہی مسئلے کا حل چاہتی ہے لیکن بیجنگ کی طرف سے اگر اکسانے کی کوشش کی گئی تو اسے منھ توڑ جواب بھی دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے مرکزی حکومت نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے رشتوں کو نئے سرے سے آگے بڑھایا ہے۔ نئی دہلی کا مقصد برصغیر پر چین کے بڑھتے دبائو کو ختم کرنا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان کو گھیرنے کے لئے چین آس پاس کے سبھی ممالک میں اپنی سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے مگر نئی دہلی بھی افغانستان، بھوٹان جیسے پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوطرفہ رشتوں کو نئی شکل دے کر اپنی پالیسی صاف کرچکی ہے۔ 
یہاں ایک بات ہندوستان کے شہریوں کو بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لڑائی کافی لمبی چلنے والی ہے۔ قیاس یہی ہے کہ صبر کے بول شاید ہی ابھی چین سمجھنا چاہے گا وہ باہری اور اندرونی کئی طرح کے چیلنجز سے جوجھ رہا ہے ایسے میں وہ ہندوستان کے ساتھ ایک نیا مورچہ کھول کر اپنے عوام اور دنیا کا دھیان بٹانا چاہتا ہے۔ اچھی بات یہی ہے کہ ہندوستان اس کی اس پالیسی  کو سمجھ چکا ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS