بیٹیوں کو پیدائشی حق وراثت دینے کا بہت بہت شکریہ

0

جیوتکا کالرا
(ترجمہ: محمد صغیر حسین)

مشترکہ ہندو خاندان میں وارثین کی بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حقوق دلانے کے لئے پارلیمنٹ نے 2005میں وراثت ہنود ایکٹ 1956میں ترمیمات کی تھیں۔ اس قانون کے تحت بیٹیوں اور بیٹوں کے حقوق و فرائض یکساں کردئے گئے تھے۔ ونیتا شرما بنام راکیش شرما (2020)میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ دختر وارث، پیدائش سے ہی وارث ہوگی۔ اس طرح سپریم کورٹ نے پرکاش بنام پھول وتی (2015)کے فیصلے کو مسترد کردیا جس نے بیٹی پر یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ شریک ورثہ تب ہی ہوسکتی ہے جب مذکورہ بالا ترمیم (2005)کے وقت اس کا باپ باحیات ہو۔
وراثتِ ہنود ایکٹ 1956او راس ایکٹ میں ترمیمات (2005)نے جو حقوق دئے ہیں، ان میں فرق ہے۔ اول الذکر میں بیٹی کو بیٹے کے برابر حق وراثت دیا تو گیا تھا لیکن یہ حق بیٹی کو باپ یا ماں کے انتقال کے بعد حاصل تھا۔ مؤخرالذکر میں، مشترکہ ہندو خاندان میں بیٹی کو حق وراثت باپ کی زندگی میں ہی ملنے کی بات کہی گئی تھی۔ درحقیقت حق وراثت کوئی پختہ اور مستقل حق نہیں ہے۔ باپ یا ماں ایک وصیت کے ذریعے اس حق سے محروم بھی کرسکتے ہیں۔ 2005کے ترمیم شدہ قانون نے اسے یکسر بدل ڈالا۔ اب اس حق سے کسی طور محروم نہیں کیا جاسکتا۔
ایک غلطی کی درستگی: ونیتا شرما بنام راکیش شرما ایک ایسا ترقی پسندانہ فیصلہ ہے جس نے سپریم کورٹ کے ایک سہو کا ازالہ کردیا۔ پرکاش بنام پھول وتی میں، سپریم کورٹ نے بیٹیوں کو حق وراثت دیتے ہوئے اس کے مؤثر بہ ماضی و مستقبل (retrospective and prospective) ہونے پر غور کیا تھا۔ عدالت نے بنیادی کلیے کا اطلاق کیا تھا کہ قانون ہمیشہ مؤثر بہ مستقبل ہوا کرتا ہے الا یہ کہ اظہار کے ذریعے یا ضروری منشاء قانون کے ذریعے اسے مؤثر بہ ماضی نہ بنایا جائے۔ عدالت نے کہا چونکہ اس قانون کو مؤثر بہ ماضی بنانے کے لئے کوئی واضح شق موجود نہیں ہے، اس لئے اس کا اطلاق ماضی پر نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس نے یہ شرط عائد کردی کہ ترمیمات کے تحت حقوق کا اطلاق صرف 9ستمبر 2005کو باحیات وارثین کی باحیات بیٹیوں پر ہی ہوسکتا ہے۔ تاہم اس شرط کے انتخاب کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ شرط مذکور نے تشریح و توضیح کے امکانات کو مزید طول دے دیا۔ کسی بیٹی کے حق وراثت کو اس کے باپ کی حیات سے مشروط کرنا واضح طور پر ایک غلطی ہے۔ کسی فرد کی موت، اس کے وارثان کے حق کا تعین نہیں کرسکتی۔ اگر قانون نے بیٹی کو حق وراثت سے نوازا ہے تو یہ حق اس کے باپ کے مرجانے سے ختم نہیں ہوسکتا۔
آئیے 2005میں کی گئی ترمیمات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر قانون کو بیٹی کے حق وراثت پر مؤثر بہ ماضی یا مؤثر بہ مستقبل کے اطلاق کے بارے میں کوئی شک و شبہ تھا تو اس نے بطور خاص دفعہ 6ذیلی دفعہ (1)میں ایک شق نہ جوڑی ہوتی۔ یہ شق بتاتی ہے کہ جائیداد کے وہ تمام حقوق جو 20دسمبر 2004 سے پہلے، منتقلی، بٹوارے، وصیت وغیرہ کے ذریعے طے پاگئے، وہ اس حق سے متاثر نہ ہوں گے۔ اسی طرح دفعہ (5)  6کی توضیح کی رو سے یہ قانون 20دسمبر 2004سے پہلے کی کسی بھی رجسٹرڈ پارٹیشن ڈیڈ کو متاثر نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالاشق اور توضیح دونوں ہی واضح طور پر گویا ہیں کہ اس قانون نے بیٹیوں کو حق وراثت سے نوازا تھا، اور قانون کے مؤثر بہ ماضی ہونے کے سبب سے کسی قسم کے ہنگامے کے خدشے کے پیش نظر ایک استثناء وضع کرلیا گیا تھا۔
قوانین میں تبدیلیوں کی ضرورت: ونیتا شرما بنام راکیش شرما میں عدالت نے اپنے حالیہ قابل تحسین فیصلے میں کہا کہ دفعہ (a) (1) 6کی رو سے بیٹی پیدائشی طور پر شریک ورثہ ہے، چنانچہ اس ضمن میں مؤثر بہ ماضی یا مؤثر بہ مستقبل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ بیٹی کی ایک فطری حیثیت ہے جو اہمیت کی حامل ہے اور اسے کسی تاریخ (date)سے مربوط کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ غیر رجسٹرڈ پارٹیشن دستاویزات جن کی تکمیل 20دسمبر 2004سے پہلے ہوگئی ہو، ان میں بھی عدالت نے بیٹیوں کے لئے ایک نیا روزن کھول دیا ہے۔ اب بیٹیاں ایسے غیر رجسٹرڈ پارٹیشن دستاویزمیں بھی اپنے حق کا مطالبہ کرسکتی ہیں جو حتمی طور پر ثابت نہ ہوئے ہوں۔
قوانین میں، بیٹی کو حق وراثت سے محروم کرنے والے نقائص ابھی بھی موجود ہیں۔ یوپی خاتمۂ زمینداری واصلاح اراضی ایکٹ، 1950میں یہ نقص آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔  یہ تفریق خالصتہً جنس پر مبنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ تمام قوانین کی جانچ کی جائے اور جہاں کہیں بھی تفریق موجود ہو، اس میں مناسب ترمیم کی جائے۔
(بشکریہ: دی ہندو)
(مضمون نگار قومی کمیشن برائے حقوق انسانی کی رکن ہیں۔)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS