وہ بچے ابھی کارخانوں میں ہیں

0

سشیل کمار سنگھ
(مترجم:محمد صغیرحسین)

بچہ مزدوری پوری دنیا میں پایا جانے والا وہ مسئلہ ہے جس کا حل نکالے بغیر بہتر مستقبل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک قومی اور سماجی داغ تو ہے ہی، کئی اور پریشانیاں بھی اس کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بچوں سے جبراً کرایا جانے والا ایسا عمل ہے جس سے ملک اور سماج کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے جو گزشتہ سو سالوں سے تشویش کا مرکز ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بچہ مزدوری کا مسئلہ 1924میں زیربحث تب آیا جب جنیوا اعلامیہ میں بچوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے پانچ نکاتی پروگرام بنایا گیا۔ اس کی بنیاد پر بچہ مزدوری پر پابندی عائد کی گئی۔ دنیا بھر میں بچوں کے کچھ پیدائشی حقوق کو تسلیم کیاگیا۔ گلوبل چائلڈ ہوڈ(Global Childhood) کی تازہ رپورٹ ملاحظہ کریں تو 176 ملکوں میں ہندوستان ایک ہزار میں سے 769نمبروں کے ساتھ 113ویں مقام پر ہے۔
اقوام متحدہ کی ہدایات کے مطابق 5 سے 14سال کے کسی بھی بچے کو کسی کام پر مجبور کرنا، اسے ضرر پہنچانا، بین الاقوامی اور قومی قانون کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔ اگر کام انہیں اسکولی تعلیم سے محروم کرتا ہے یا اسکولی تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کا دباؤ ڈالا جاتا ہے تو وہ بچہ مزدوری ہے۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری کے واضح اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں لیکن 2011کی مردم شماری کے مطابق 5سے 14سال کے کروڑوں بچے اس دلدل میں گرفتار ہیں۔
انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن(ILO) کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں 15کروڑ سے زیادہ بچے اس کا شکار ہیں جس میں سب سے زیادہ بچے افریقہ میں ہیں۔ 7کروڑ سے زیادہ بچے افریقہ میں بچہ مزدوری کے شکنجے میں گرفتار ہیں، جب کہ ایشیا پیسفک میں یہ قریب سوا چھ کروڑ ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ کہے جانے والے ملک امریکہ میں بچہ مزدوروں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری والی ریاستوں میں بالترتیب اترپردیش، بہار، راجستھان، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش شامل ہیں۔ یہاں بچہ مزدوروں کی مجموعی تعداد کی 55%تعداد رہتی ہے۔ ریاستوں کے اعتبار سے دیکھیں تو اترپردیش اور بہار میں یہ تعداد 21.5%اور 10.7%ہے۔
بچہ مزدوری(ممانعت اور ضابطہ بندی) ترمیمی ایکٹ کو 2012میں منظوری مل گئی تھی حالاں کہ یہ قانون دونوں ایوانوں میں 2016میں پاس ہوا، جس میں 1986 کے قانون کو بہتر بنایا گیا۔ نئے قانون میں 14سے 18 سال کی عمر کے کمسنوں کے کام کے سلسلے میں نئی تعریفیں وضع کی گئیں۔ اسے لازمی حق تعلیم ایکٹ 2009سے مربوط کرنے کا بھی نظم کیاگیا۔ حالاں کہ ان سب کے باوجود کچھ معاملے، مثلاً روایتی کاروبار، استاذ/شاگرد کے تعلقات کے تحت کام کرنے والے بچوںکو اس سے باہر رکھا گیا۔ مگر اِن کا بھی اسکول جانا لازمی قرار دیا گیا۔ سماجی/معاشی تبدیلی کے اس دور میں کافی کچھ بدل رہا ہے۔ اس کے باوجود کئی معاملے اصلاح سے محروم ہیں جن میں بچہ مزدوری بھی شامل ہے۔
ہندوستان میں مزدوری کرنے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد دیہاتوں میں رہتی ہے۔ تقریباً 80%بچہ مزدوروں کی جڑیں دیہی ہندوستان میں پیوست ہیں، جس میں کھیتی سے جڑے مزدوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس قدر سائنسی اور تکنیکی ترقی کے باوجود دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں بچہ مزدور بڑھ رہے ہیں، جنہیں عام زندگی جینے کی شاید ہی کوئی امید ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا بچہ مزدوری جیسے مسئلے کا حل کسی کے پاس ہے؟
بین الاقوامی مزدور تنظیم(ILO) نے بچہ مزدوری کی تعریف صحت کی صلاحیت، تعلیم میں رکاوٹ اور استحصال کی شکل میں متعین کی ہے۔ عالمی پیمانے پر اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بچوں کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ بچہ مزدوری کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ کارل مارکس کے مطابق بچہ مزدوری کا یہ مرض صنعتی انقلاب کے ابتدائی دنوں میں ابھرا۔ اقوام متحدہ، بین الاقوامی مزدوری تنظیم اور امریکہ سمیت دنیا کے تمام ملکوں کا بچہ مزدوری کے سلسلے میں بچوں کی عمر پر الگ الگ نظریہ ہے۔ امریکہ میں بارہ سال سے کم عمر کے کمسنوں کو بچہ مزدور مانا جاتا ہے جب کہ اقوام متحدہ نے اس کی عمر 18سال طے کی ہے۔ بین الاقوامی مزدور تنظیم نے 15سال طے کی ہے جب کہ ہندوستان میں یہ عمر چودہ سال ہے۔
ہندوستان میں 1979 میں حکومت نے بچہ مزدوری ختم کرنے کے سلسلے میں گروپادسوامی کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی نے بچہ مزدوری کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی اور اس کی بیخ کنی کے لیے ایک کثیر پہلو پالیسی بنانے پر زور دیا۔ کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر1986میں بچہ مزدوری(ممانعت و ضابطہ بندی) ایکٹ منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد 1987 میں اس سے متعلق مخصوص پالیسی بنائی گئی جس میں پرخطر کاروبار اور کاموںمیں مصروف بچوں کی بازآبادکاری پر زور دیا گیا۔ اکتوبر2006تک بچہ مزدوری قانون میں یہ تذبذب پیدا ہوا کہ کس کام کو خطرناک کہیں اور کسے نہ کہیں۔ اسی کے بعد 1986 کے ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ڈھابوں، گھروں، ہوٹلوں میں بچہ مزدوری کو قابل سزا جرائم کے زمرے میں رکھا گیا۔ ہندوستان میں قوانین کی کثرت کے باوجود بچہ مزدوری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ 1986کے ایکٹ میں تراسی کاموں کو خطرناک کے زمرے میں رکھا گیا تھا، جو ترمیم کے بعد تین علاقوں تک محدود رہ گیا، جہاں کم سن بچے کام نہیں کرسکتے جن میں کانکنی، آتش گیر مادے اور خطرناک کام شامل ہیں۔
بین الاقوامی مزدوری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق بچہ مزدوروں کی مجموعی تعداد کی نصف تعداد خطرناک کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچہ مزدوری کیوں بڑھتی ہے۔ یونیسیف(UNICEF) کے مطابق بچوں کو کام پر اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اُن کا آسانی سے استحصال کیا جاسکتا ہے۔ جن اسباب سے بچے اپنی عمر کے مطابق مشقت بھرے کام کرتے ہیں، اُن میں عام طور پر غریبی پہلی وجہ ہے۔ آبادی میں غیرمعمولی اضافہ، سستی مزدوری اور قوانین کا صحیح طریقے سے نافذالعمل نہ ہونا، غریبی کی وجہ سے اسکول چھوٹ جانا وغیرہ جیسے اسباب ہی انہیں بچہ مزدوری میں جھونکتے ہیں۔ جس طرح کروڑوں بچے کام پر لگائے جارہے ہیں اس پر ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔
حالاں کہ گزشتہ چند سالوں میں حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں نے بچہ مزدوری کے سلسلے میں قابل ستائش کوششیں کی ہیں۔ قانون برائے حقوق تعلیم، پاکسو قانون اور بچہ مزدوری سے متعلق قوانین میں ترمیمات اس جہت میں اچھے اقدامات ہیں، پھر بھی سختی سے انہیں نافذ کرنا باقی ہے۔
بین الاقوامی مزدور تنظیم(ILO) کی رپورٹ کے مطابق بچہ مزدوری کروانے والے ملکوں میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ کس قدر افسوسناک ہے کہ ننھے ہاتھوں میں بیڑی، پٹاخے، ماچس، اینٹیں، جوتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے قالین بنوائی جاتی ہیں، کڑھائی کروائی جاتی ہے اور ریشم کے کپڑے بنوائے جاتے ہیں۔ ریشم کے تار خراب نہ ہوں، اس لیے بچوں سے ہی کام کروایا جاتا ہے۔ Findings on the forms of child labour نام کی ایک رپورٹ میں برسوں پہلے لرزہ خیز حقائق سے پردہ اٹھایا گیا تھا۔ ترقی پذیر ملکوں میں بچہ مزدوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں اسٹیل فرنیچر اور چمڑے کے سامان وغیرہ بنانے کے کاموں میں بچوں کی کثرت ہے۔
1996میں سپریم کورٹ نے بچہ مزدوروں کی بازآبادکاری کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کا حکم صادرکیا تھا جس میں ہر آجر کو فی بچہ بیس ہزار روپے جمع کرنے کا نظم تھا۔ فی الحال واضح سوال یہ ہے کہ کیا صرف قوانین سے بچہ مزدوری کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ جب تک تعلیم اور بازآبادکاری کا پورا متبادل نظام نہیں ہوگا تب تک قانون آدھے ادھورے اور بے معنی ہی ثابت ہوں گے۔
(بشکریہ: جن ستّا)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS