لداخ کی وادیوں کو اب بھی ان ہواؤں کا انتظار ہے، جو گلوان میں امن کا پیغام لے کر آئیں۔چار ماہ قبل جب ایل اے سی کے اس حصہ پر تنازع کا آغاز ہوا تھا، تب ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ اس مرتبہ بات اتنی لمبی اور اتنی آگے چلی جائے گی۔ 1962کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب گلوان وادی سے متعلق تنازع اتنی دور تک چلا گیا ہے۔ کئی دور کی بات چیت اور فوجی ٹکڑیوں کی مورچہ بندی کے درمیان ہماری جانب سے وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے تک سرحد کا دورہ کرآئے ہیں، لیکن تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ الٹے اس سے متعلق پوری دنیا میں نئے سرے سے صف بندی شروع ہوگئی ہے۔ اب ایسی خبریں آرہی ہیں کہ روس اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے پہل کررہا ہے۔ ماسکو میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن(ایس سی او) کی میٹنگ کے دوران راج ناتھ سنگھ سے چین کے وزیردفاع کی ملاقات روس کی اسی پہل سے جڑی کڑی بتائی جارہی ہے۔
یہ ملاقات دو گھنٹے سے بھی زیادہ چلی تو ظاہری طور پر اس میں گلوان میں دوبارہ امن بحال کرنے پر تفصیل سے بات ہوئی ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جو بات غور کرنے والی ہے، وہ ہے ملاقات سے پہلے چین کو ہمارے وزیردفاع سے ملی نصیحت۔ راج ناتھ سنگھ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ علاقائی استحکام کی کسی بھی شروعات کو کامیاب بنانے کے لیے جارحانہ تیور کا ختم ہونا ضروری ہے۔ چین بھی اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ اس کی ہٹ دھرمی سے شروع ہوا بدامنی کا یہ دور جتنا لمبا کھنچے گا، اسے اس کا اتنا ہی بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ نقصان سے متعلق ہندوستان کی بھی اپنی تشویشات ہیں۔ چین اور پاکستان سے ٹکراؤ ایک ہی سکے کے دو پہلو نہیں ہیں، بلکہ دو بالکل الگ الگ سکے ہیں۔ اسی لیے پاکستان پر بیانات کے حملہ میں ہماری سرکاری مشینری بھلے ہی بے لگام ہوجائے، لیکن چین پر وزیراعظم کی سطح سے بھی ہوا پلٹ وار اس کا نام لیے بغیر کیا جاتا ہے۔ ایشیا کی دو سب سے بڑی طاقتیں ہونے کے ساتھ ہی دونوں ملک ایک دوسرے کے بڑے تجارتی اور معاشی شراکت دار بھی ہے۔
ہندوستان کی جانب سے تین مراحل میں 200سے زیادہ ایپ بین کیے جانے پر چین کی بوکھلاہٹ دونوں ممالک کے مابین بڑی گہرائی سے وابستہ آپسی مفادات کی تصدیق کرتی ہے۔ 2018-19کے مالیاتی سال میں ہندوستان نے صرف کمپیوٹر کے 92فیصد، موٹرسائیکل کے 85فیصد اور ٹی وی کے 82فیصد پارٹس چین سے درآمد کیے تھے۔ یہ تو صرف ایک سیمپل ہے۔ سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ باہمی تجارت میں چین کی برآمد ہم سے چار گنا زیادہ ہے۔ سال2019میں ہی چین نے ہمیں 70.32بلین ڈالر کا سامان فروخت کیا، جبکہ ہندوستان سے اس نے صرف 16.75بلین ڈالر کی خریداری کی۔
ظاہراً لگتا ہے کہ ایپ کے بعد اگر اس برآمد پر بھی بین کی تلوار لٹکتی ہے، تو چین کے لیے اس نقصان کی تلافی آسان نہیں ہوگی۔ لیکن حقیقت تھوڑی علیحدہ ہے۔ چین اتنا بڑا گلوبل سپلائر بن چکا ہے کہ ہندوستان کو کیا گیا برآمد اس کی عالمی برآمدات کا صرف 3فیصد ہے۔ چین ہم سے کئی گنا زیادہ برآمد امریکہ، ہانگ کانگ، جاپان، جنوبی کوریا، ویت نام اور جرمنی جیسے ممالک کو کرتا ہے۔ اس لیے ہندوستان اس کے لیے کوئی بڑا بازار نہیں ہے اور اگر ہم اس کا سامان لینا بند بھی کردیں تو اس کا نقصان معمولی ہی ہوگا۔الٹا ہمارا نقصان زیادہ ہے۔ ایک تو ہمیں چین کو ہونے والی پانچ فیصد ایکسپورٹ اور 14فیصد امپورٹ سے ہاتھ دھونا پڑے گا، دوسرے چین کی سستی پیداوار خریدنے کی عادت کو بدل کر امریکہ یا دوسرے ممالک کے مہنگے سامان کو خریدنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ ایسا کم سے کم تب تک تو کرنا ہی پڑے گا جب تک ہم چین کی طرح مینوفیکچرنگ میں آتم نربھر(خودکفیل) نہیں ہوجاتے۔اس کے باوجود اس حقیقت کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ممالک کی اکنامی ایک دوسرے کی حریف نہیں، بلکہ تکمیل ہے۔
تو پھرہندوستان سے سرحدی تنازع بھڑکا کر چین جان بوجھ کر آگ سے کیوں کھیل رہا ہے؟ سوال کا جواب سیدھا نہیں ہے۔ اس میں سپرپاور بننے کی جن پنگ کی خواہش سے لے کر لڑکھڑاتی معیشت پر بڑھتی گھریلو غیراطمینانی اور کورونا کے سبب ہورہی بین الاقوامی کرکری سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے ساتھ ہی چین کی توسیع پسندانہ سوچ کا انضمام بھی نظر آتا ہے۔ بھلے ہی چین آج ہندوستان سے صدیوں پرانے پرامن تعلقات کا حوالہ دے رہا ہے،بیشک ہندوستان کو یقین دلارہا ہے کہ وہ ہمارے لیے توسیع پسندانہ خطرہ نہیں ہے، لیکن حقیقت کیا ہے، یہ دنیا کی تاریخ اور ایشیا کے جغرافیہ میں درج ہے۔ اکسائی چین سے شروع کریں تو گلوان وادی کے تجربہ میں کچھ بھی نیاپن نہیں نظر آتا۔ باقی پڑوسیوں کے لیے بھی چین سردرد ہی ثابت ہوا ہے۔ ویسے تو چین کی سرحد 14ممالک سے ملتی ہے، لیکن زمین اور سمندری سرحدوں پر اس کے دعووں سے 23ملک پریشان ہیں۔ مشرقی ترکستان، تبت، منگولیا، ہانگ کانگ، مکاؤ اور روس کی زمینی سرحدوں اور تائیوان، برونئی، انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائنس، ویت نام،سنگاپور، جاپان سے سمندری سرحدوں سے متعلق چین کا ہمیشہ تنازع رہا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ بھی چین جغرافیائی حالات کے سبب پڑوسی نہیں بنا ہے، بلکہ 1951میں تبت پر قبضہ کرکے وہ ہندوستان کے پڑوس میں آبیٹھا ہے۔ کئی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ گزشتہ سات دہائیوں میں چین دوسرے ممالک کی41لاکھ اسکوائر کلومیٹر زمین پر زبردستی قبضہ کرچکا ہے۔ یہ موجودہ چین کا 43فیصد حصہ ہے۔ مطلب یہ کہ اپنی ہڑپنے والی پالیسی سے چین نے اپنے سائز کو تقریباً دوگنا کرلیا ہے۔
بہرحال، گلوان کے تازہ مرض کا علاج پرانے زخموں پر نمک چھڑک کر نہیں ہوسکے گا، بلکہ ان زخموں کی ٹیس کو سبق بنانے سے ہی ہوگا۔ دونوں فریقوں کو اس پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اور جب بھی جنگیں ہوئی ہیں، ان کا نمٹارا جنگ کے میدان پر نہیں،بلکہ بات چیت کی ٹیبل پر ہی ہوا ہے۔ چین سے ہمارا سرحدی تنازع 6دہائی پرانا ہے اور اس کا نمٹارہ بھی اس بات کو دھیان میں رکھ کر ہی کرنا ہوگا۔ اس لحاظ سے روس میں چینی فریق کی جانب سے بات چیت کی پیش کش کو کسی ایک فریق کی طاقت کم ہونے یا دوسرے کی بڑھ جانے کے نظریہ سے دیکھنے کے بجائے دیر سے ہی سہی پر ایک کامیاب پہل کے طور پر دیکھا جانا زیادہ مناسب ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)