لو فصل بہار آئی زنجیر نظر آئی

0

ڈی راجا
(ترجمہ: محمدصغیر حسین)

ہندو انڈیا کے تصور کی مخالفت و مزاحمت گاندھی، نہرو، پٹیل، مولانا آزاد اور امبیڈکر جیسے عظیم لیڈروں نے پوری زندگی کی۔
ہمارے ملک کو سامراجی غلاموں کی بیڑیوں سے 15؍اگست 1947کو نجات ملی اور وہ آزادی اور خودانحصاری کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ یہ اس شاندار جدوجہد کا نقطۂ عروج تھا جس میں ہزاروں ہم وطنوں نے آزاد ہندوستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ 14اور 15اگست 1947کی درمیانی شب میں، پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں انہیں جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کہا تھا: ’’آج جس کامیابی کا ہم جشن منارہے ہیں، وہ اس سے بھی کہیں بڑی کامیابی اور فتح و ظفر کی جانب بس ایک قدم ہے، مواقع کا آغاز ہے جو ہمارے منتظر ہیں۔‘‘
آزادی کے وقت ہندوستان کو دو بہت بڑے اور انتہائی شدید مسئلوں کا سامنا تھا۔ قدم قدم پر پھیلی ہوئی غریبی اور بے روزگاری، اور تقسیم ہند کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کی آفت۔ ہماری قیادتوں نے جس طرح ان مسئلوں کا حل نکالا وہ آج بھی ہمارے لیے سبق آموز ہے۔
کووڈ-19بحران نے ملک کے انفرااسٹرکچر کے بارے میں نریندر مودی حکومت کے بلندبانگ دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ دنیا بھر میں انفیکشن کے یومیہ سب سے زیادہ معاملات میں ہندوستان اب پہلے مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ جو معیشت نوٹ بندی، جلدبازی میں تھوپی گئی جی ایس ٹی اور عوامی املاک کی لوٹ کے بعد بیمار پڑی تھی، وہ اب کسادبازاری(Recession) کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آربی آئی گورنر نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سال رواں میں جی ڈی پی(GDP) گرنے کے قوی امکانات ہیں۔ آئی سی آر اے(Investment and Credit-rating Agency) نے 9.5%گرنے کی پیش گوئی کردی ہے۔ عالمی وبا سے نمٹنے میں بہت ہی بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بے روزگاری کا بحران شدید تر ہوگیا۔ سی ایم آئی ای(CMIE) کے مطابق بے روزگاری کی شرح جولائی میں 7.43% تھی۔ اب جو چیز ہم سب کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے وہ لاک ڈاؤن کے دوران عوامی سیکٹر کی منظم طور پر تباہی و بربادی ہے۔
آزادہندوستان کے لیڈروں نے عوامی سیکٹر کو، غریبی اور بے روزگاری دور کرنے اور مختلف علاقوں کے درمیان ترقیاتی تفریق کو ختم کرنے کے لیے، ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن ریلویز اور بینکوں سمیت عوامی سیکٹر اداروں کو نیست و نابود کیا جارہا ہے۔ یہ کچھ اور نہیں بس گزشتہ کئی دہائیوں کی حصولیابیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔
ساتھ ہی ساتھ، فرقہ واریت، جمہوریت کی بنیاد پر ہتھوڑے برسارہی ہے۔ ہندوانڈیا کے تصور کی مخالفت و مزاحمت گاندھی، نہرو، پٹیل، مولانا آزاد اور امبیڈکر جیسے عظیم لیڈروں نے پوری زندگی کی۔ ہندوستان کی تعمیر سیکولر بنیادوں پر ہوئی ہے۔ جنگ آزادی میں ہر فرقے نے وطن عزیز کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں۔ آج ملک میں جو الگ تھلگ کرنے کا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ علیحدگی اور من و تو کی سیاست جنگ آزادی کے مجاہدین کی یادوں کی توہین ہے۔
بی جے پی-آر ایس ایس مرکب کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد اور سبھاش چندربوس کسی ہندوراشٹر کے لیے قربان نہیں ہوئے۔ سیکولرزم اور مساوات کے تئیں اُن کا عہدو پیمان مکمل اورمصمم تھا۔ ان کے خوابوں کا ہندوستان ایک سیکولر عوامی جمہوریت تھی۔ ہندوراشٹر کا تصور، نظام مراتب(hierachy)اور اِخراجی(exclusion) ذہنیت پر مبنی ہے۔ یہ نہ صرف اقلیتوں سے تفریق کا حامی ہے بلکہ ذات پات، برہمنیت اور پدرسری (Patriarchy) نظام کی سنگلاخ روایتوں پر قائم و دائم ہے۔ آئین کے معمار امبیڈکر نے لکھا تھا کہ، ’’اگر ہندو راج ایک حقیقت کا روپ دھارن کرتا ہے تو یہ ملک کے لیے سب سے بڑی آفت ہوگی‘‘، اور انہیں نے آگاہ کیا تھا کہ، ’’یہ(ہندوراشٹر) جمہوریت کے ناموافق اور متضاد ہے۔‘‘
5؍اگست 2019،  کو مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370کو منسوخ کردیا اور آئین کی عطا کردہ جموں و کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ ریاست کو تقسیم کرکے اسے مرکزی قلمرو کا درجہ دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے فوائد کا انتظار ہے۔ ہاں یہ بات ہم جانتے ہیں کہ کشمیری عوام گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔
اس سال 5اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بھومی پوجن سماروہ کی قیادت پرائم منسٹر نے کی۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اُن کے عقب میں تھے۔ اس موقع پر دیش کے پردھان منتری، یوپی کے مکھیہ منتری اور راجیہ پال کی موجودگی نے عملاً ایک مخصوص دھرم کو سرکاری درجہ دے دیا۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
اس سے آگے بڑھ کر پرائم منسٹر نے یہ فرمایا کہ اب 5؍اگست اسی قدر اہم ہوگیا ہے جس قدر اہم 15؍اگست ہے۔ پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا ’’کاشی-متھرا باقی ہے‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ یہ سیکولر انڈیا کو ایک ہندوراشٹر میں بدلنے کے کسی مذموم منصوبے کی جانب ایک واضح اشارہ تھا۔ 5؍اگست کو پندرہ اگست کے ہم پلہ قرار دینے کا صاف مطلب یہ تھا کہ تحریک آزادی کو ہندوتو کی علامتوں کے ساتھ خلط ملط کرنے کی ایک دیدئہ ودانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ 15اگست اپنی جدوجہد آزادی کو یاد کرنے کا موقع ہے۔ یہ دن مساوات، سیکولرزم، باہمی تعاون، صبرو تحمل اورمعقولیت جیسی زرّیں قدروں کے لیے جشن منانے کے لیے وقف ہے۔ اکثریت پسند ہندوتوا سیاست اس وراثت کی تحریف کی کوشاں ہے۔ سماج کے تمام فرقوں اور طبقوں کو شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر اپنی گنگاجمنی وراثت کو بچانا چاہیے۔
(بشکریہ:انڈین ایکسپریس)
(مضمون نگار کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(CPI) کے جنرل سکریٹری ہیں۔ یہ اُن کے نجی خیالات ہیں۔ ان سے ادارے؍مدیران؍مترجم کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS