کفیل خان آخر رہا کر دیے گئے۔ ان کی رہائی کے لیے ان کے گھر کے لوگوں نے بڑی جدوجہد کی لیکن مصیبت کی گھڑی میں وہ تنہا نہیں تھے۔ انہیں ملک کے انصاف پسند اور انسان دوست لوگوں کا ساتھ حاصل تھا۔ غیرجانب دار لوگوں کو حیرت اس بات پر تھی کہ ڈاکٹر کفیل خان کو آخر کس بات کی سزا دی گئی اور اب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ان پر لگائے گئے این ایس اے اور اس میں توسیع کے حکم کو غیرقانونی قرار دے کر اسے رد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی گرفتاری پر لوگوں کا حیرت زدہ ہونا صحیح تھا۔
سی اے اے کے خلاف تقریباً پورے ملک میں احتجاج ہوا تھا، لوگوں نے تاثرات کا اظہار کیا تھا تو ان احتجاجات اور لوگوں کے تاثرات کے اظہار کو عام طور پر ان کا جمہوری حق مانا گیا تھا مگر ڈاکٹر کفیل خان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ علی گڑھ میں انہوں نے سی اے اے پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اشتعال انگیز بیان دیا۔ ڈاکٹر کفیل کہتے رہے کہ انہوں نے اشتعال انگیز بیان نہیں دیا ہے مگر این ایس اے کے تحت انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ ڈرے نہیں، مایوس نہیں ہوئے، انصاف پانے کی امید نہیں چھوڑی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سناکر یہ بتا دیا کہ انصاف ابھی زندہ ہے، جب تک انصاف پسند جج عدالتوں میں رہیں گے، انصاف کی لڑائی میں مظلوم کی شکست کبھی نہیں ہوگی۔ یکم ستمبر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’این ایس اے کے تحت ڈاکٹر کفیل کی گرفتاری غیرقانونی تھی، اس لیے این ایس اے ہٹایا جا رہا ہے۔‘ چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس سومتر دیال سنگھ پر مشتمل الٰہ آباد ہائی کورٹ کی بینچ نے حکومت کی یہ دلیل نہیں مانی کہ ڈاکٹر کفیل خان جیل سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کو مشتعل کر رہے تھے۔ عدالت نے بجا طور پر یہ کہا کہ جیل میں ڈاکٹر کفیل خان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس کا استعمال کرکے وہ طلبا کو مشتعل کرتے۔ عدالت عالیہ کی بینچ نے اشتعال انگیز بیان کو مسترد کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا کہ ’این ایس اے لگانے سے قبل ڈاکٹر کفیل کو سی ڈی نہیں دی گئی جسے دیکھ یا سن کر وہ اس سلسلے میں اپنی صفائی دے سکیں۔‘دراصل عدالت نے یہ بات ملحوظ رکھی کہ انتظامیہ کسی پر بھی یونہی الزام عائد نہیں کرسکتی، الزام کو ثابت کرنے کے لیے اسے ثبوت دینے ہوں گے تاکہ ملزم اس کا جواب دے سکے اور عدالت اس کے جواب کی روشنی میں یہ دیکھ سکے کہ ملزم پر عائد الزام کس حد تک درست ہے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اشتعال انگیز تقریر کے معاملے پر ڈاکٹر کفیل خان کا کہنا ہے کہ ’جس بیان کو اشتعال انگیز بتاکر میرے خلاف کارروائی کی گئی، وہ دسمبر 2019 کا تھا اور میری گرفتاری 29 جنوری کو ہوئی۔ درمیانی وقفے میں مجھے اس سلسلے میں جانکاری نہیں تھی کہ میری تقریر کو اشتعال انگیز بتاکر ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور نہ ہی مجھ سے کسی طرح کے سوال پوچھے گئے۔‘ ایسی صورت میں یہ الزام قابل فہم ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کو ’پھنسایا‘ گیا۔ انتظامیہ کو اگر لگتا ہے کہ یہ الزام غلط ہے تو اسے یہ بتانا چاہیے کہ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف کارروائی کرنے میں تاخیر کی وجہ کیا رہی اور تاخیر کے باوجود وہ ان کے بیان کی سی ڈی انہیں فراہم کرنے میں ناکام کیوں رہی؟
انتظامیہ کو یونہی الزام عائد کرنے سے بچنا چاہیے ، کیونکہ خواہ مخواہ الزام عائد کرنے یا معاملے کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے سے یا پوری تیاری کے ساتھ الزام عائد نہ کرنے سے اس کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس کی وہ ساکھ نہیں بن پاتی جو بننی چاہیے۔ اسے جو لوگ سیاست کے کھیل کا آسان مہرہ سمجھتے ہیں، انہیں یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ صحیح سمجھتے ہیں۔ انتظامیہ کو اپنے بارے میں خود سوچنا پڑے گا، اپنی ساکھ کا خیال اسے رکھنا ہوگا، اسے یہ سمجھنا پڑے گا کہ معاملے کے عدالت میں جاتے ہی دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ ملزم کے واقعی مجرم ہونے پر بے جان ثبوت بھی بغیر بولے اس بات کی گواہی دے دیتے ہیں کہ وہ مجرم ہے، ورنہ ڈاکٹر کفیل خان کی طرح اسے بے قصور ثابت کر دیتے ہیں۔ یہ بات بلا تامل کہی جائے گی کہ ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی نے عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھنے والے لوگوں کی امید کی لو کو بجھنے سے بچایا ہے۔ اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وطن عزیز کے لوگ، بالخصوص اقلیتی طبقے کے لوگ اپنی آخری امید عدالتوں کو سمجھتے ہیں تو غلط نہیں سمجھتے۔ عدالتوں نے ہمیشہ ان کے اعتماد کی لاج رکھی ہے، البتہ کئی بار عدالتوں کے فیصلے عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آپاتے تو یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ہر جج ایک طرح کا نہیں ہوتا، ہر جج ہر ایشو کو ایک ہی طرح سے نہیں دیکھتا، چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف کا مندر ہیں!
[email protected]
ڈاکٹر کفیل کو ملا انصاف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS