قومی تعلیمی پالیسی : تفہیم و تعبیر

0

ڈاکٹر منور حسن کمال

قومی تعلیمی پالیسی 2020نئے ہندوستان کی تعمیر میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے سامنے آسکتی ہے۔ اس لیے کہ پالیسی وضع کرنے کے بعد گزشتہ برس ہی پالیسی کے مسودے پر ملک کے دانشور اور تعلیم یافتہ طبقہ سے تجاویز طلب کی گئی تھیں، اس سلسلے میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کو کم وبیش دو لاکھ تجاویز موصول ہوئی تھیں۔ جن کی روشنی میں قومی تعلیمی پالیسی کے مسودے پر یقینا غوروخوض ہوا ہوگا اور اس کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا ہوگا۔ لیکن بعض ماہرین تعلیم کی رائے ہے کہ مسودے کا ایڈٹ شدہ مواد بھی عوام کے سامنے پیش کیا جاتا تاکہ وہ سمجھ سکتے کہ موصول شدہ تجاویز کے مطالعے کے بعد مسودے کو منظور کیا گیا ہے۔
بعض افراد نئی تعلیمی پالیسی کو خطرناک قرار دے رہے ہیں، لیکن قومی تعلیمی پالیسی کے مسودے کے مطالعے کے بعد کوئی خطرناکی سامنے نہیں آئی۔ البتہ اردو کے تعلیمی پالیسی میں جگہ نہ پانے پر کف افسوس ملا جانا بڑی حد تک درست ہے۔ ایسا لگتا ہے عام لوگوں نے مسودے کا حرفاً حرفاً مطالعہ نہیں کیا ہے۔ تعلیمی صورت حال کی پرائمری سطح سے بات شروع کی جائے تو اسکولی تعلیم نظام کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پری پرائمری ایک برس، پہلی اور دوسری جماعت ایک-ایک برس۔یہ پہلا حصہ ہوگا، دوسرا حصہ تیسری، چوتھی اور پانچویں جماعت اور تیسرا حصہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت۔ یہ تینوں حصے تین تین برس پر مشتمل ہوں گے۔ چوتھے حصے میں نویں، دسویں اور گیارہویں، بارہویں جماعت کا سلسلہ رہے گا البتہ بارہویں جماعت جس کو انٹرمیڈیٹ کہا جاتا ہے، اس کو ختم کرنے کا پروگرام ہے اور ہائر سکینڈری اور جونیئر کالج کا نظام ختم کرکے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کا سکینڈری کے زمرے میں الحاق کردیا جائے گا۔
چھٹی جماعت سے سہ لسانی فارمولے کے تحت تعلیم کو عام کیا جائے گا۔ مقامی زبانوں کے علاوہ علاقائی زبانیں بھی پڑھائی جائیں گی، سنسکرت کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اساتذہ کی خدمات کو صرف درس و تدریس تک ہی محدود کردیا جائے گا۔ انتخابات کے موقع پر ان کو مامور کرنے سے گریز کیا جائے گا۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ طلبا کو پڑھائیں اور تعلیمی معیار کو نہ صرف بلند کریں بلکہ برقرار بھی رکھیں۔
اسکول کی سطح پر ہر 30طلبا پر ایک استاد کے تناسب کو یقینی بنایا جائے گا۔ اہل نظر کی دانست میں یہ مرحلہ سب سے دشوار ہے۔ اس لیے کہ فی الوقت طلبا کے تناسب سے اساتذہ اسکولوں میں موجود نہیں ہیں۔ یہ صورت حال ہمیشہ رہتی ہے اور جب ان اساتذہ کی انتخابات، پلس پولیو اور حکومت کے دوسرے پروگراموں میں ڈیوٹیاں لگتی ہیں تو اسکولوں میں اساتذہ کا بحران پیدا ہونا فطری بات ہے۔
دہلی جو ملک کا دارالسلطنت ہے یہاں اساتذہ اور طلبا کا تناسب کم و بیش 35طلبا پر ایک استاذ ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ کی اسکولوں میں صد فیصد حاضری ہو بصورت دیگر حالات اور تناسب مزید غیرمتوازن ہوجاتا ہے۔
یوروپ کی مشہور یونیورسٹیوں آکسفورڈ اور کیمرج سے کئی صدی قبل ہندوستان کی ریاست بہار میں نالندہ یونیورسٹی کا بول بالا تھا۔ یہ یونیورسٹی تعلیم و تعلّم کا ایک عالمی مرکز تھی، مگر اکیسویں صدی کے آتے آتے نہ بہار کی یونیورسٹی کا کوئی نام رہا اور نہ قومی سطح پر تعلیمی نظام کا ہی۔ اس وقت بہار میں طلبا اور اساتذہ کے تناسب کا اگر جائزہ لیا جائے تو صورت حال بہت افسوسناک ہے۔ اب 38طلبا پر ایک استاد کا تناسب وہاں کی تعلیمی صورت حال کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے۔ بڑی کلاسوں میں تو اس میں ایک طالب علم کا مزید اضافہ سامنے آیا ہے۔ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق فی استاد 32طلبا کا تناسب ہے۔ یہ پرائمری سطح پر ہے، اس کے آگے صورت حال کچھ بہتر ہے اور یہ تناسب 24طلبا پر ایک استاد کا ہے۔ ہوسکتا ہے صورت حال بڑی حد تک یہی ہو جو بتائی جارہی ہے، لیکن اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے اور ہر باپ اپنے بچے کو اچھے اسکول میںتعلیم دلانا چاہتا ہے، اس لیے پورے ملک میں پرائیویٹ اسکولوں کا ایک جال سا پھیلا ہوا ہے۔ وہاں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ایک کلاس میں 40، پچاس بچے ہونا عام بات ہے اور ایک ہی استاد پر ان کی تعلیم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت جہاں سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اور طلبا کا تناسب 30طلبا پر ایک استاد رکھنا چاہتی ہے، وہیں اسے یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ پرائیویٹ اداروں میں بھی یہ تناسب قائم ہوتاکہ بچے بہتر تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کریں۔
’’بابائے قوم گاندھی جی کا خواب تھا کہ ہر بچہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کو تلاش کرے اور دوسروں کی طرح اس دنیا کی تعمیرنو میں بھرپور حصہ لے۔‘‘ اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے اساتذہ کی جب ہم تناسب کے اعتبار سے تعداد پوری کرلیں گے تبھی اساتذہ بھی اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے سکیں گے۔ وگرنہ تعلیمی سطح پر جو صورت حال ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ حکومتی سطح پر پرائمری اسکول اور اعلیٰ تعلیم دونوں شعبوں میں بڑے پیمانے پر تغیراتی اصلاحات کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اکیسوی صدی کی پہلی تعلیمی پالیسی ہے، یہ پالیسی ہمہ گیر ترقیات کے 2030 کے ایجنڈے سے مربوط ہے اور اس کا مقصد ہندوستان کو علم پر مبنی ایک فعال معاشرہ اور اسکول کالج دونوں کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مجموعی اور جامع کثیرالنوع، جو اکیسویں صدی کی ضروریات کے مطابق رول ماڈل ہو، کے مطابق ڈھالنا اور مضبوط بنانا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ابتدائی سطح سے ہی طلبا کے ساتھ اساتذہ کا تناسب قطعی درست ہو۔ بہ صورت دیگر مطلوبہ ہدف کو پانا ایک مشکل امر ہے۔ ایک بات جو میں اکثر اسی کالم کے تحت کہتا رہا ہوں کہ حکومت تو اپنے طور پر لائحہ عمل بناتی ہے اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے اہتمام بھی کرتی ہے۔ ہم اپنی سطح پر بھی ان مفید اور کارآمد منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کی نہ صرف کوشش کریں، بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا فائدہ گاؤں گاؤں اور حاشیے پر بیٹھے ہوئے عام آدمی تک بھی پہنچے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر ثروت مند اصحاب اسکولوں، مکتبوں اور دوسرے کالجز کا جال بچھانے کے لیے آگے آئیں۔ حکومت سے اداروں کو منظور کرائیں اور نہ صرف ادارے قائم کریں، بلکہ ان کی ہر سطح پر دیکھ ریکھ کے لیے آڈیٹر مقرر کریں اور انہیں منافع کا ذریعہ نہ سمجھ کر صرف کارخیر سمجھ کرکریں۔ آج بھی ملک میں ایسے امیروکبیر افراد کی تعداد قابل لحاظ حد تک مناسب ہے جو اس کام میں حصہ لے کر قوم و ملک کا بھلا کرسکتے ہیں۔ یقینا یہ ان کے لیے نہ صرف دنیاوی اعتبار سے بلکہ اُخروی اعتبار سے بھی فائدہ کاسودا ہوگا۔یہ بات عمومی طور پر ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ محسوس نہیں ہوتی، لیکن اس خواب کی تعبیر یقینا ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہت مفید اور کارآمد ہوگی اور وہ اپنے اجداد کی اس وراثت کو پاکر سرخ رو ہوں گے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS