نئی دہلی :ہندوستانی نژاد نورعنایت خان صوفی موسیقی سے محبت کرنے والی ایک خوبصورت لڑکی تھیں۔ نور نے بچوں کے لئے کتابیں بھی لکھتی
تھیں۔ جب جرمنی پر فرانس پر حملہ ہوا تو وہ برطانوی جاسوس کے طور پر فرانس پہنچی۔ آج،ہندوستانی نژاد نور عنایت خان کی بہادری اور جرات کی
داستان پوری برطانیہ اور یورپ میں گائی جاتی ہے۔
تقریبا 76 برس گزر جانے کے بعد برطانیہ کو احساس ہوا کہ اب اس مسلمان شہزادی کو اعزاز و اکرام سے نوازنے کا وقت آ گیا ہے جس نے دوسری
جنگ عظیم کے دوران فرانس پر نازیوں کے قبضے کے بعد برطانیہ کے مفاد میں جاسوسی انجام دی تھی۔ اس شہزادی کا نام "نور عنایت خان"تھا۔ نور
کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا تو اس موقع پر وہ فرانسیسی زبان میں "آزادی آزادی"بول رہی تھی۔ برطانیہ میں English
Heritage ٹرسٹ نے اسے یادگاری تختی پیش کی۔ یہ عام طور پر مشہور شخصیات کو پیش کی جاتی ہے۔ ادارے نے لندن کے وسط میں واقع
Taviton Street پر اس اپارٹمنٹ کو بھی درست کیا جہاں نور اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہا کرتی تھی۔
نور کا پورا نام "نور النساء عنايت خان" تھا۔ وہ 1914ء میں پیدا ہوئی اور 1944ء میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نور
نے Madeleine کے فرضی نام سے ایک خفیہ ادارے کے لیے بطور ایجنٹ کام کیا۔ اس ادارے کا نام Special Operations
Executive تھا۔
نور کا تعلق ہندوستان کے معروف مسلمان حکمراں ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھا۔ وہ حضرت عنایت خان کی بڑی بیٹی تھیں۔ حضرت عنایت خان وہی شخص تھے جنہوں نے مغربی ممالک میں ہندوستانی صوفی ایزم کو بلند مقام عطا کیا ۔
نور عنایت یکم جنوری 1914 کو ماسکو میں پیدا ہوئیں تھیں۔ اس کے والد ہندوستانی تھے اور والدہ امریکی تھیں۔ اس کے والد ایک مذہبی استاد تھے ،جو
پہلے کنبے کے ساتھ لندن اور پھر پیرس میں آباد ہوئے تھے۔ نور نے وہاں تعلیم حاصل کی اور کہانیاں لکھنا شروع کی۔
جب نور چھوٹی تھیں،تو وہ اپنے کنبے کے ساتھ انگلینڈ چلی گئیں،جبکہ وہیں قیام کے دوران،نور نے ایئرفورس کی خواتین معاونین کی ایک ٹیم میں شمولیت
اختیار کی۔ نور نے اپنی اچھی معلومات اور فرانسیسی زبان پر اچھی پکڑ ہونے کی صلاحیت کے ساتھ اسپیشل آپریشن گروپ کی توجہ مبذول کرلی۔ اس
کے بعد وہ جاسوس کی حیثیت سے کام کرنے پرراضی ہوگئیں۔ جون 1943 میں،انہیں جاسوسی کے لئے بطور ریڈیو آپریٹر فرانس بھیج دیا گیا۔ اس کے
کوڈ کا نام 'میڈیلن'تھا۔ وہ مختلف جگہوں سے پیغامات بھیجتی رہی۔ وہ دو دیگر خواتین،ڈیانا راؤن اور سیسلی لیفورٹ کے ساتھ فرانس کا سفر کرتی رہی
، جہاں وہ فرانسس سوٹیل کی سربراہی میں نرس کی حیثیت سے میڈیکل نیٹ ورک میں شامل ہوگئیں۔
نور عنایت نے پیرس میں اپنے انٹیلیجنس نیٹ ورک کو کامیابی سے تین ماہ سے زیادہ عرصہ تک چلایا اور نازیوں کی معلومات کو برطانیہ کو فراہم
کرتیں۔ 13 اکتوبر 1943 کو ایک کامریڈ کی محبوبہ نے حسد کے مارے ان کی مخبری کی اور ان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔27 نومبر 1943 کو نور کو پیرس سے جرمنی منتقل کیا گیا۔ نومبر 1943 میں ،انہیں جرمنی کے فورجیم جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران بھی ، افسران
نے اس سے بہت پوچھ گچھ کی ، لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا۔
نور کو سر پر گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اس کے بعد سب کو قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نور واقعی ایک مضبوط اور بہادر لڑکی تھیں۔ اس وقت
نور کی عمر صرف 30 سال تھی۔ اس نے آخری لمحے تک اپنا راز نہیں کھولا۔ جب اسے گولی ماری گئی ، اس کے ہونٹوں پر لفظ تھا آزادی۔ اس عمر
میں ، اتنی بہادری کہ جرمن فوجی ان تمام کوششوں کے باوجود ان کا اصل نام تک نہیں جان سکے۔
برسوں کی گمنامی کے بعد ،برطانیہ نے بہادر ہندوستانی خاتون کو بعد ازاں جارج کراس کو ایوارڈ سے نوازا۔ اب ان کا تانبے کا مجسمہ لندن میں لگایا
جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے جب برطانیہ میں کسی مسلمان یا ایشین خاتون کا مجسمہ لگایا جارہا ہے۔ دوسری طرف،فرانس نے اسے اپنا سب سے بڑا
شہری اعزاز کروکس ڈی گیئر سے بھی نوازا۔