کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے دنوں کی کہانی: مہاراجہ ہری سنگھ پر کیا دباؤ تھا؟

    0

    ایک معاہدہ  جس کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کی قیادت میں کشمیر رجواڑے کا الحاق انڈیا کے ساتھ ہوا، یعنی 1947 کا ’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘ یا معاہدہ الحاق۔ اس کے پس منظر اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس کے تحت اس پر دستخط کیے گئے اور ساتھ ہی ’فارن آفس لیگل ایڈوائیزرز‘ کے قانونی ماہرین کی نظر میں اس کی قانونی حیثیت پر بھی نظر ڈالتے ہی۔

    کشمیر: ایک خود مختار رجواڑا

    برطانوی ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کشمیر برطانوی سرپرستی میں ایک خود مختار رجواڑا تھا۔ اس وقت کے تمام رجواڑوں کو برطانوی ہندوستان کا حصہ تصور نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی ان رجواڑوں کے شہریوں کو برطانوی عوام کا درجہ حاصل تھا۔ برطانوی پارلیمان کے پاس ان رجواڑوں کے لیے قانون سازی کا حق بھی نہیں تھا۔ ہاں، برطانوی حکام کے پاس دفاع اور خارجہ پالیسی کے متعلق اختیارات تھے۔

    کشمیر میں برطانیہ نے تبھی مداخلت کی جب جب وہاں حکومتی ناکامیوں کی وجہ سے امن وامان کی صورت حال کافی بگڑ گئی تھی۔ مثال کے طور پر مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دور میں جب ان کی حکومت سے بدگمانی بہت بڑھ گئی تو برطانوی حکام نے کشمیر کی اندرونی سیاست میں مداخلت کرتے ہوئے مہاراجہ کو 1889 سے لے کر 1905 تک اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔

    دیگر انڈین رجواڑوں کے برعکس کشمیر میں 1885 میں کوئی مستقل برطانوی ’ریزیڈنٹ‘ نہیں ہوا کرتا تھا اور 1885 میں اس پالیسی میں تبدیلی کی وجہ دراصل روس اور افغانستان کی طرف سے ممکنہ خطرہ تھا نہ کہ کشمیر کی اندرونی صورت حال۔

    مجموعی طور پر کشمیر کو ایک ’بفر‘ ریاست ہونے کی وجہ سے دوسرے رجواڑوں کے مقابلے میں زیادہ خود مختاری اور دیگر سیاسی مراعات حاصل تھیں۔

    کشمیر کا اپنا آئین تھا، اپنے قوانین اور اس کے برطانیہ اور ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ متعدد معاہدے بھی تھے۔ ہندوستان پر برطانوی راج کے آخری دنوں میں کشمیر کی خودمختاری کو واضح طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا۔

    تقسیم ہند اور رجواڑوں کا سوال

    ہندوستان میں برطانوی سامراج کے اختتام پر اٹھنے والا پہلا سوال یہ تھا کہ برطانوی سرپرستی ختم ہونے کے بعد رجواڑوں اور ان دو نئے ممالک، انڈیا اور پاکستان، کے درمیان کس طرح کا رشتہ ہوگا؟

    برطانوی حکومت نے کئی بیانات اور قوانین کے ذریعے یہ بات واضح کر دی تھی کہ برطانوی راج کی جگہ نئے ممالک، انڈیا اور پاکستان نہیں لے سکتے اور یہ کہ ان کی سرپرستی ختم ہو جائے گی۔

    اس سے صاف ظاہر ہے کہ برطانیہ چاہتا تھا کہ یہ فیصلہ رجواڑے خود کریں کہ وہ انڈیا یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان بیانات میں اکثر اس طرح کے اشارے بھی موجود ہوتے تھی کہ ان کی دلی خواہش ہے کہ رجواڑے انڈیا یا پاکستان، دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کے ساتھ الحاق کر لیں۔

    کشمیر کے معاملے میں یہ سوال اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ مہاراجہ نے فوری طور پر دونوں میں سے کسی بھی نئے ملک کے ساتھ الحاق سے انکار کرتے ہوئے خود مختاری کا انتخاب کیا۔

    سنہ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے مطابق رجواڑوں کی طرف سے کیے گئے دعووں کو منظور کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت یہ وعدہ کیا گیا کہ خود مختار ہندوستان کو ان رجواڑوں پر سبقت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ تب تک کی بات ہے جب پاکستان کے وجود کے بارے میں ابھی بات شروع نہیں ہوئی تھی۔

    سن 1946 میں ہندوستان میں برطانوی ’کیبنٹ مشن‘ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بالادستی ’نہ تو برطانوی تاج کے پاس رہ سکتی ہے اور نہ ہی نئی حکومت کو منتقل کی جا سکتی ہے۔‘

    اس بات کو ایک بار پھر 12 مئی 1946 کو جاری ہونے والے کیبینٹ مشن کے میمورنڈم میں دہرایا گیا: ’ریاست کے وہ حقوق جو برطانوی تاج کے ساتھ اس کے تعلق کا نتیجہ ہیں ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ وہ تمام حقوق جو ریاستوں نے برطانوی راج کو دے رکھے تھے، وہ اب ریاستوں کے پاس واپس جائیں گے۔‘

    20 فروری 1947 کو برطانیہ کے وزیر اعظم ایٹلی نے برطانوی پارلیمان کو بتایا کہ برطانوی حکومت کا مؤقف وہی ہے جو کیبنٹ مشن کا ہے۔ انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’ملکہ برطانیہ کی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ برطانوی راج کو رجواڑوں میں بالادستی دینے والے حقوق اور فرائض ہندوستان کی کسی بھی حکومت کو دے دے۔‘

    تین جون 1947 کے ایک بیان میں اس بات کو دہرایا گیا کہ رجواڑوں میں اختیارات اور فرائض کی منتقلی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد 10 جولائی 1947 کو ایک بار پھر وزیر اعظم ایٹلی نے یہی مؤقف دہرایا۔

    16 جولائی 1947 کو ہندوستان اور برما کے امور کے وزیر لارڈ لسٹوویل نے برطانوی پارلیمان کے ایوانِ بالا میں کہا ’اس لمحے سے برطانوی تاج کے نمائندے کی طرف سے کی گئی تعیناتیاں، ان کے فرائض سب ختم ہو جائیں گے اور ریاستیں خود اپنی قسمت کی مالک ہوں گی۔ وہ خود اس بات کا انتخاب کریں گی کہ وہ انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی ہیں یا پھر اکیلے کھڑے ہونا چاہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمام رجواڑوں کو دونوں میں سے ایک نئے ملک میں اپنا صحیح مقام مل جانا چاہیے۔‘

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی 25 جولائی 1947 کو چیمبر آف پرنسز سے اپنے خطاب میں کیبنٹ مشن میمورنڈم کی سفارشات کو دہرایا۔ تاہم ماؤنٹ بیٹن نے، جو جواہر لال نہرو کے اچھے دوست تھے اور اس وقت آزاد انڈیا کے پہلے گورنر جنرل بننے کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے، وہاں جمع راجوں مہاراجوں سے یہ بھی کہا کہ ’ہر سمجھدار حاکم کی خواہش ہوگی کہ وہ انڈیا جیسے شاندار ملک کا حصہ بنے۔‘

    لارڈ ماؤنٹبیٹن کا کردار اور رجواڑوں کے پاس راستے

    ان کی یہ بات اپنی جگہ، لیکن رجواڑوں پر یہ واضح ہو گیا کہ ان کے پاس یہ راستے ہیں: انڈیا کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ الحاق، یا پھر مکمل خود مختاری اور آزادی کا اعلان۔

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے طریقہ کار کی وجہ سے رجواڑوں کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ملا جس پر لارڈ لیسٹوویل نے برہمی کا اظہار کیا۔

    29 جولائی 1947 کو وزیر اعظم ایٹلی کو لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے رجواڑوں کو دیا گیا الٹی میٹم کہ انھیں 15 اگست 1947 سے پہلے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنا ہوگا، دراصل ’اس بارے میں پارلیمان میں ہونے والی بات سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘

    لارڈ لیسٹوویل نے لکھا ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ وائسرائے کی توجہ ان تضادات کی طرف دلائی جانی چاہیے، تاکہ رجواڑوں کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں ان نکات پر زور نہ دیا جائے۔ وائس رائے کی حیثیت ایک ثالث کی ہے۔ اس وجہ سے ان کے لیے ہم جواب دہ ہیں، اس لیے انھیں ان خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے، خاص طور پر اس لیے کہ حزب اختلاف یہ بالکل نہیں چاہتی کہ رجواڑوں پر ہماری طرف سے کوئی دباؤ ڈالا جائے۔‘

    دو اگست 1947 کو لارڈ لیسٹوویل نے اپنے اور وزیر اعظم ایٹلی کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ایک ٹیلی گرام روانہ کیا۔

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو مطلع کیا گیا کہ پارلیمان میں حکومت کے ترجمان نے واضح کیا تھا کہ رجواڑوں کو کسی بھی فیصلے تک پہنچنے میں وقت لگ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ’سٹینڈ سٹل‘ (یعنی کچھ نہ بدلے) معاہدے پر دستخط کرنا چاہیں۔

    ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خاتمے کی تیاری کے دوران 1947 کے انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ میں برطانوی حکومت کے مؤقف کو واضح کیا گیا کہ ’برطانوی تاج کو حاصل بالادستی یا سبقت کسی بھی صورت میں منتقل نہیں کی جا سکتی‘ اور یہ بس ختم ہو جائے گی۔ تاہم اس ایکٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ برطانوی حکومت کی ’ان علاقوں کی حکومتوں، جو اس دن (15 اگست 1947) سے ٹھیک پہلے تک برطانوی ہندوستان میں شامل تھے‘ کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں۔

    اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس ایکٹ کی کچھ شقوں کو مزید واضح کرنے کی ضرورت تھی، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان رجواڑوں کا کیا ہوگا جنھوں نے 15 اگست 1947 سے پہلے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا۔

    اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ پنڈت نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن دونوں ہی کو ایکٹ بننے کے ساتھ ہی اس سقم کا علم ہو گیا تھا۔ دونوں ہی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اس ایکٹ میں مزید کوئی اضافہ نہ کیا جائے اور پارلیمانی بحث کے دوران ایسا کچھ نہ کہا جائے جس سے رجواڑوں کے الحاق نہ کرنے کے امکان کو تسلیم کیا جائے۔

    کیا کشمیر پر انڈیا کے حملے کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں؟

    یہاں تک کہ اس مسئلے کے تدارک کے لیے جواہر لال نہرو کے قریبی ساتھی مسٹر مینن کو وزیر اعظم ایٹلی کو بریف کرنے کے لیے اور ان تک نہرو کا ایک ’نوٹ‘ پہنچانے کے لیے لندن بھیجا گیا۔

    18 جولائی 1947 کو مینن کی طرف سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھیجی گئی ایک چٹھی سے اس سب کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’آپ کا خط اور نہرو کی طرف سے ذاتی نوٹ جو میں اپنے ساتھ لایا تھا، اتوار کو ڈاؤننگ سٹریٹ (برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ) بھیجے گئے۔۔ وزیر اعظم اگلی صبح دس بجے مجھ سے ملے۔ آپ نے تو سب کو سبق سکھا دیا! ۔۔ پھر میں نے رجواڑوں کے حوالے سے ہمارا کیس ان کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔

    انہوں نے قانونی افسروں اور ہنڈرسن کو کمرے میں بلایا اور ہم نے کوئی 70 منٹ تک اس بارے میں بات کی۔ مسٹر ایٹلی مدد کرنے کے لیے بیچین تھے۔ ہم نے شق سات کا مطالعہ کیا اور الگ الگ ترکیبیں لگانے کی کوشش کی۔۔

    میری لیسٹوویل، ہنڈرسن اور کرپس سے بھی ملاقات ہوئی اور تینوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے خطابوں اس طرف اشارہ ضرور کریں گے کہ ملکہ برطانیہ کی حکومت رجواڑوں کے لیے نئے بننے والے ممالک کے ٹکڑے کرنے کا خیرمقدم نہیں کرے گی۔ سب نے بہت تعاون کیا۔‘

    بارہ جولائی 1947 کو لیسٹوویل کو بھیجے گئے ایک ٹیلیگرام میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لکھا ’پارلیمان میں الحاق نہ کرنے والے رجواڑوں کی حیثیت واضح کرنے کی کوئی بھی کوشش، میرا خیال ہے کہ قبل از وقت ہوگی اور اس سے یہاں جاری مذاکرات کے کام کے انجام پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔‘

    اس خط و کتابت سے صاف ظاہر ہے کہ ماؤنٹ بیٹن اور کانگریس نے مل کر کوشش کی کہ 1947 کے انڈین انڈپینڈینس ایکٹ میں الحاق نہ کرنے والے رجواڑوں کے بارے میں موجود غیر واضح دفعات کی وضاحت نہ کی جائے۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا انڈیا کے لیے کشمیر پر قبضے کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا۔

    پندرہ اگست 1947 کو قانونی طور پر کشمیر آزاد ہو گیا

    1947 کے انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ کے تحت 15 اگست 1947 کو کشمیر پر سے برطانوی بالادستی ختم ہو گئی۔ اور چونکہ کشمیر نے 15 اگست سے پہلے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا، تو قانونی طور پر وہ آزاد ہو گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ آزاد ہی رہنا چاہتے تھے یہ اس بات سے واضح ہو گیا کہ انہوں نے دونوں، انڈیا اور پاکستان کے ساتھ 1947 کے انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ ’سٹینڈ سٹل‘ معاہدے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

    مہاراجہ نے بارہ اگست 1947 کو بالکل ایک سے ٹیلی گرام دونوں ممالک کو بھیجے۔ پاکستان 15 اگست 1947 کو اس معاہدے کے لیے راضی ہو گیا۔

    جہاں تک انڈیا کا سوال ہے تو انڈیا اس بارے میں مذاکرات کر رہا تھا مگر اس نے اس معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کیے۔

    پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ ہو جانا اور انڈیا کے ساتھ اس پر مذاکرات ہونا، اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی نئے ملک کے پاس کشمیر پر کوئی اختیار یا بالادستی نہیں تھی۔

    تمام قانون سازی اور برطانوی حکومت کے بیانات سے واضح ہے کہ جیسے ہی ہندوستان میں برطانوی سامراج ختم ہوا، کشمیر مکمل طور پر آزاد ہو گیا اور اس بات کو انڈیا اور پاکستان دونوں نے تسلیم کیا۔ یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے 26 اکتوبر 1947 تک، جب کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق ہوا، کشمیر مکمل طور پر آزاد تھا۔

    تین جون 1947 کو ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے میں واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان کو دو ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔ رجواڑوں کے الحاق کا معاملہ کانگریس پارٹی کے ایجنڈا میں کافی اہم تھا۔ اس مقصد کے لیے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو محکمہ داخلہ سونپا گیا اور ان کا کام رجواڑوں کو انڈیا کے ساتھ الحاق پر مائل کرنا تھا اور وہ بہت بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

    صرف تین ایسے رجواڑے تھے جنھوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ الحاق کریں گے یا نہیں۔ کشمیر، جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن۔ کشمیر سٹریٹجک لحاظ سے اہم تھا اور ساتھ ساتھ کشمیر کے ساتھ نہرو کا ’جذباتی تعلق‘ بھی تھا کیونکہ وہ ان کے آباؤ اجداد کا وطن تھا۔

    کشمیر کے ساتھ نہرو کا ’جذباتی تعلق‘

    اس وقت کے دستاویزات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ کرانے کے لیے کافی شدید لابنگ کی گئی۔ یہ بات نہرو کے کشمیر کے ساتھ جذباتی تعلق کے بارے میں اپنی ذاتی رپورٹ نمبر 15 میں ماؤنٹ بیٹن کے اپنے تبصرے سے بھی واضح ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’مجھے پتا چلا ہے کہ جب مجھ سے ملاقات سے پہلے پٹیل نے نہرو کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ٹوٹ کر رو پڑے، اور کہا کہ اس وقت ان کے لیے کشمیر سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں۔‘

    یہ بات صاف ہے کہ اس ’جذباتی تعلق‘ اور ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ قریبی دوستی کا ’ڈرانے اور مجبور کرنے‘ کی اس مہم میں اہم کردار تھا جس کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو انڈیا کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا گیا۔

    اس مقصد سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 18سے 30 جون 1947 کے دوران کشمیر کا دورہ کیا جہاں انھوں نے مہاراجہ ہری سنگھ اور ان کے وزیر اعظم آر سی کاک کے ساتھ کئی ابتدائی ملاقاتیں کیں۔

    مہاراجہ ہری سنگھ کی مشکلات

    مہاراجہ ہری سنگھ کی لیے 1947 ایک مشکل سال تھا۔ مقامی جماعتوں کی طرف سے دباؤ، پونچھ میں خانہ جنگی اور اس کے اوپر برطانوی ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں اور وائسرائے کی طرف سے دباؤ۔

    اس وقت کی دستاویزات کے مطالعے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مہاراجہ نے آزاد رہنے کے لیے اپنا ذہن بنا لیا تھا، جس وجہ سے انھوں نے ماؤنٹ بیٹن سے مزید ملاقاتوں سے کنارہ کشی کی تاکہ انھیں الحاق کے بارے میں بات نہ کرنی پڑے اور وہ اپنے لیے تھوڑا اور وقت حاصل کر سکیں۔

    تاہم ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ ’سٹینڈ سٹل‘ معاہدہ کرنے کی صلح دی۔ ماؤنٹ بیٹن اپنے ساتھ نہرو کی طرف سے مہاراجہ کے لیے ایک ’کشمیر پر ایک نوٹ‘ بھی لائے تھے۔ اس نوٹ کی زبان اور لہجہ کافی جارحانہ تھا: ’کشمیر کی صورت حال کا مقبلہ بڑی تبدیلیوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو مہاراجہ کی پوزیشن مزید غیر مستحکم ہو جائے گی۔

    تاہم اگر مہاراجہ اس سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے انڈیا کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ فوری طور پر جو اقدامات لازمی ہیں وہ وزیر اعظم کاک کی برخاستگی اور شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی رہائی ہیں۔ کشمیر میں جو ہوتا ہے وہ یقیناً پورے انڈیا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ اس سرحدی ریاست کی سٹریٹیجک اہمیت ہے ۔۔ اس ریاست کے وسائل وسیع ہیں۔۔ اگر کشمیر کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی طرف جھکانے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔۔ کشمیر کی انڈیا کی آئین ساز اسمبلی میں شمولیت فطری اور قدرتی ہے۔

    اس نوٹ کا لہجہ حکم کا سا تھا اور اس میں مہاراجہ ہری سنگھ کو وزیر اعظم کاک کو برخاست کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

    مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے یووراج کرن سنگھ کے مطابق وزیر اعظم کاک ’ایک ایسے شخص تھے جن کے پاس ذہنی قابلیت اور شعور تھا۔‘ وہ ایک قوم پرست کشمیری پنڈت تھے اور کشمیر کی آزادی کے پیروکار تھے۔ نہرو کا خیال تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق سے انکار کے پیچھے دراصل وزیر اعظم کاک کا ہاتھ تھا اور اسی لیے انھیں نکلوانا چاہتے تھے۔

    اس کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ کے ساتھ دوستی کی وجہ سے نہرو ذاتی طور پر ان کو آزاد کروانا چاہتے تھے۔ نہرو شیخ عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس کو کانگریس کے پارٹنر کے طور پر دیکھتے تھے۔

    ماؤنٹ بیٹن کے دورہ کشمیر کے بعد ان پر یہ الزام لگا کہ وہ دراصل کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق یقینی بنانے کے لیے کانگریس کی طرف سے مہم پر گئے تھے۔ اور اگر الحاق نہیں تو کم سے کم یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے کہ کشمیر قبل از وقت آزادی کا اعلان نہیں کرے گا۔

    لارڈ ماؤنٹبیٹن اور نہرو کی خاص دوستی

    سر کانریڈ کورفیلڈ 1945-1947 تک وائس رائے ماؤنٹبیٹن کے سیاسی مشیر تھے۔ ان کے خیال میں ماؤنٹ بیٹن نے مستقل طور پر برطانوی ہندوستان کے سیاسی محکمہ کی صلاح اور رجواڑوں پر برطانیہ کی پالیسی کو نظر انداز کیا۔

    کورفیلڈ کے مطابق ان کے ماؤنٹ بیٹن کو سیاسی مشیر کی حیثیت سے دیے گئے مشورے نہرو کے ساتھ وائس رائے کی لمبی اور گہری دوستی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، جن کی خواہش تھی کہ کشمیر انڈیا کے پاس رہے۔ ماؤنٹبیٹن نے کورفیلڈ کے مشورے کے برعکس کشمیر جانے کا فیصلہ کیا اور مروج برطانوی پالیسی کے برعکس وہ اپنے سیاسی مشیر کو ساتھ لے کر نہیں گئے۔

    کورفیلڈ کے خیال میں ماؤنٹ بیٹن نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ان کے دوست نہرو کسی بھی طرح کشمیر کا الحاق انڈیا سے کرانا چاہتے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر اور حیدرآباد سے متعلق کورفیلڈ کی صلاح بھی رد کر دی۔ کورفیلڈ نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ان دو رجواڑوں کا استعمال انڈیا اور پاکستان کے مابین سمجھوتہ کرانے کے لیے کیا جا سکتا ہے کیوںکہ کشمیر ایک ہندو مہاراجہ والا مسلم اکثریتی رجواڑا تھا اور حیدرآباد مسلم حکمران والا ہندو اکثریتی رجواڑا۔ تاہم اس منصوبے کو ماؤنٹ بیٹن نے رد کر دیا۔

    اس کے باوجود نہرو ماؤنٹ بیٹن کے کشمیر دورے کے نتائج سے خوش نہیں تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کو لکھے ایک خط میں انہوں نے لکھا، ’میری نظر میں آپ کا دورہ کشمیر کامیاب نہیں رہا۔ سب ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ بلکہ آپ کے دورے نتائج سے مجھے کافی مایوسی ہوئی۔ کشمیر میرے لیے بہت اہم بن گیا تھا۔‘

    ماؤنٹ بیٹن کے ناکام دورے کے بعد ان کے چیف آف سٹاف لارڈ ہیسٹنگ اسمے کو کشمیر بھیجا گیا۔ مہاراجہ نے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا اور الحاق کی بارے میں کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ دو اگست 1947 کی اپنی ذاتی رپورٹ میں ماؤنٹ بیٹن نے لکھا، ’نہرو خود کشمیر جانے کے لیے بیقرار ہیں۔‘

    ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ نہرو اس دن کو بھلا نہیں پائے جب انہیں کشمیر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    جب نہرو کو کشمیر میں گرفتار کیا گیا

    اٹھارہ جون 1947 کو جب نہرو نے مہاراجہ کی اجازت کے بغیر، شیخ عبداللہ سے یکجہتی کے ارادے سے کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تو انہیں دومل میں مہاراجہ کے احکامات پر گرفتار کر لیا گیا تھا اور وہ دو دن تک حراست میں رہے۔

    نہرو کو اس سے خاصا صدمہ پہنچا ہوگا۔ وہ اس وقت کانگریس کے جانے پہنچانے رہنما تھے اور سب انہیں آزاد ہندوستان کے ہونے والے وزیر اعظم کے طور پر دیکھتے تھے۔ یعنی 1947 تک بھی مہاراجہ کے پاس اس قدر اختیار تھا کہ وہ اپنے احکامات پر جس طرح چاہتے عمل کروا سکتے تھے اور برطانوی حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔

    نہرو کی گرفتاری کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ نہرو کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ تاہم مہاراجہ نے انکار کر دیا۔ ’دی ماؤنٹ بیٹن پیپرز اینڈ سپیشل کلیکشنز ڈیٹابیسس‘ کے مطالع سے پتا چلتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کو اس بات کا علم تھا کہ وزیر اعظم کاک اور مہاراجہ کو نہرو سے ’سخت نفرت‘ تھی۔

    ماؤنٹ بیٹن کو یہ بھی پتا تھا کہ کانگریس پارٹی کے کسے بھی رہنما کے کشمیر جانے کو میڈیا اچھی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ ماؤنٹ بیٹن نے مشورہ دیا کہ ’اگر گاندھی کشمیر جائیں تو ان کی شخصیت کے مذہبی رنگ کی وجہ سے اس کے منفی پہلووں کو کم کیا جا سکتا ہے، جبکہ اگر نہرو جاتے ہیں تو اسے واضح سیاسی لابینگ کے طور پر دیکھا جائے گا۔‘

    ان دستاویزات سے واضح ہو جاتا ہے کہ وائس رائے ہوتے ہوئے بھی ماؤنٹبیٹن انڈیا کے فائدے کے لیے کام کر رہے تھے۔

    گاندھی کشمیر گئے اور چار اگست 1947 تک وہاں رہے جس دوران انہوں نے مہاراجہ اور ان کے پورے خاندان سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد ہی وزیر اعظم آر سی کاک کو ان کے عہدے سے الگ کر دیا گیا اور ان کی جگہ جنرل جنک سنگھ کو وزیر اعظم کے طور پر تعینات کیا گیا۔

    آر سی کاک کی برخاستگی سے کانگریس کا مطالبہ بالکل ویسے ہی پورا ہوا جیسے کہ نہرو نے اپنے اس ’جامع نوٹ‘ میں لکھا تھا جو ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ تک پہنچایا تھا۔ اس وقت کے دستاویزات سے صاف ظاہر ہے کہ اس سے ریاست میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔

    مہاراجہ کو انڈیا کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا جا رہا تھا، اس کے شواہد ان بےضابطگیوں میں بھی ملتے ہیں جو ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشاورت کے بعد ریڈکلف کمیشن کے کام میں نظر آتی ہیں۔

    جب ماؤنٹ بیٹن کو ایک متحد ہندوستان کا قیام ناممکن لگنے لگا تو تین جون کے اپنے منصوبے میں انہوں نے اقتدار کی منتقلی کا اعلان کیا، جس میں پنجاب، بنگال اور سِلہٹ کی دو قومی نظریے کی بنا پر تقسیم شامل تھی۔

    تقسیم ہند اور ریڈکلف کمیشن: گرداسپور کا سوال

    تیس جون 1947 کو علاقوں کو منقسم کرنے کے لیے ریڈکلف کمیشن کو تشکیل دیا گیا۔ تاہم اس کمیشن نے پنجاب کا مسلم اکثریتی علاقہ گرداسپور انڈیا کے حصے میں ڈال دیا، جس سے انڈیا کو کشمیر کے تک رسائی کا واحد راستہ مل گیا۔ لیاقت علی خان نے اس بارے میں لارڈ اسمے کو خط لکھا، جس کے جواب میں لارڈ اسمے نے لکھا، ’محمد علی کے ذریعے بھیجا گیا آپ کا ذاتی پیغام دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ہوں۔ جہاں تک بات میری سمجھ میں آرہی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ۔۔۔ گرداسپور۔۔۔ باؤنڈری کمیشن نے مشرقی پنجاب کو عطا کر دیا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ یہ ایک منصفانہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی فیصلہ ہے: اگر ایسا ہے تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہے اور یہ برطانیہ کی طرف سے اعتماد اور بھروسے کو توڑنے کے مترادف ہوگا۔

    ریڈکلف ایوارڈ کو 15 اگست 1947 کے بعد ہی منظر عام پر لایا گیا، حالانکہ ماؤنٹ بیٹن کو آٹھ اگست کو ہی اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ گرداسپور کی مسلم اکثریت کے باوجود اس کو انڈیا کو عطا کیا جا رہا تھا۔ انڈیا نے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ ’سٹینڈ سٹل‘ معاہدے پر دستخط کرنے میں تاخیر بظاہر ریڈکلف کمیشن کے فیصلہ کا انتظار کرنے کی غرض سے ہی کی۔

    اس بات کو مینن کے ایک بیان سے تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم سٹینڈ سٹل معاہدے کے اثرات کو سمجھنے کے لیے وقت چاہتے ہیں۔۔ ریڈکلف ایوارڈ کی وجہ سے ریاست کا اب انڈیا کے ساتھ زمینی تعلق قائم ہو گیا ہے۔‘

    مینن کے اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ کشمیر تک زمینی رسائی نہرو کی سیاسی تگ و دو کا نتیجہ تھی، جس کا نتیجہ بالآخر کشمیر میں انڈیا کی فوج کے داخلے اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انڈیا کے ساتھ الحاق کی صورت میں سامنے آیا۔

    حقیقت یہ ہے کہ پندرہ اگست 1947 تک انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرکے کشمیر آزاد ہو گیا تھا۔ برطانوی ہندوستان کی تقسیم اور ریڈکلف کمیشن کی بے ضابطگیوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر ہندو اور مسلمان آبادیوں کی ہجرت ہوئی اور ساتھ ہی قتل و غارت اور ہلاکتیں بھی۔

    کشمیر کی اندرونی صورت حال اور قبائلی حملہ

    اس وقت تک کشمیر میں سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا اور مظاہرین سڑکوں پر اتر آئے تھے، خاص طور پر پونچھ میں۔ مہاراجہ کی فوج پر جموں کی مسلم آبادی کے قتل عام کے الزام لگے۔ کچھ اندازوں کے مطابق پانچ لاکھ کی آبادی میں سے دو لاکھ کے قریب ہلاک کر دیے گئے اور جو بچ گئے وہ جان بچا کر پاکستان چلے گئے۔

    اس خبر کا نتیجہ یہ ہوا کہ 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے صوبہ سرحد کے قبائلیوں کی طرف سے کشمیر پر حملہ کیا گیا، جس کا مقصد، ان کے بقول کشمیر میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا تھا۔ پٹھان قبائلی دو تین سو ٹرکوں میں آئے اور انہوں نے لوٹ مار اور قتل و غارت شروع کر دی۔

    متحد انڈیا کے آخری کمانڈر ان چیف فیلڈ مارشل آچنلیک کو تیس ستمبر 1947 کو سپریم کمانڈر کے عہدے پر تعینات کیا گیا جس پر وہ نومبر 1947 تک فائض رہے۔ اس کا مقصد انڈیا اور پاکستان کے درمیاں مسلح افواج کی تقسیم کو یقینی بنانا تھا۔

    مینن کے مطابق جب آچنلیک کو پاکستانی فوجی ہیڈ کوارٹر سے قبائیلی حملے کی پیشگی اطلاع ملی تو انھوں نے انڈین حکومت کو اس سے آگاہ کیا۔

    انڈیا تک قبائیلی حملے کی خبر 24 اکتوبر 1947 کو پہنچی اور اگلے ہی دن انڈین دفاعی کمیٹی نے، جس کے ماؤنٹ بیٹن بھی رکن تھے، فیصلہ کیا کہ مینن کو فوری طور پر سرینگر جا کر معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔

    مینن کو، کرنل سیم مانیکشا کے ساتھ، جو کہ فضائیہ میں افسر تھے، رایل انڈین ایئر فورس کے ڈی سی تھری میں سرینگر بھیجا گیا۔ اس وقت پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل میسروی پاکستانی فوج کے لیے ہتھیار خریدنے کی غرض سے لندن میں تھے کیونکہ تقسیم کے وقت انہیں اسلح میں حصہ نہیں ملا تھا۔

    مینن کے مطابق انڈیا نے 24 اکتوبر 1947 کے بعد فضائی اور زمینی راستے سے انڈین فوج کو کشمیر بھیجنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔

    یہاں یہ بات واضح ہے کہ اس صورت حال میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع کرنے کے بجائے دونوں کی طرف سے قبائلیوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کی جانی چاہیے تھی، خاص طور پر اس وجہ سے کہ دونوں فوجوں کا سپریم کمانڈر ایک ہی تھا، فیلڈ مارشل آچنلیک۔

    قبائیلی حملے کے بعد جو ہوا اس سے کشمیر کی شاہی ریاست کی سکیورٹی کا تحفظ کرنے میں برطانیہ کہ غیر ذمہ داری، اخلاقی احتساب اور تیاری کہ کمی ظاہر ہوتی ہے۔ کشمیر نے انڈیا اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ کشمیریوں کا تحفظ برطانیہ کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری تھی۔

    الحاق کا مشروط معاہدہ

    اس قبائلی حملے کے بعد 25 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ بھاگ کر جموں چلے گئے اور انھوں نے اپنے نئے وزیر اعظم مہاجن کو (جو جنک سنگھ کے بعد اس عہدے پر تعینات ہوئے تھے) فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے دلی بھیجا۔ انڈیا نے الحاق کے بغیر مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ نے ماؤنٹ بیٹن کو انڈیا کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے ایک خط لکھا اور مینن کے مطابق جموں میں معاہدہ الحاق پر دستخط کیے۔

    اسی دن مینن جموں میں نمودار ہوئے، مہاراجہ کے دستخط حاصل کیے اور ان سے کشمیر میں ان کی حکومت بحال کرنے کے لیے فوجی مدد کا وعدہ کیا۔

    27 اکتوبر 1947 ماؤنٹ بیٹن نے عارضی طور پر معاہدہ الحاق کو قبول کر لیا، اس شرط پر کہ کشمیر میں مہاراجہ کے انڈیا کے ساتھ اس فیصلے پر رائے شماری ہوگی۔

    26 اور 27 اکتوبر 1947 کو لکھے گئے دو خط، پہلا مہاراجہ کی طرف سے ماؤنٹ بیٹن کو اور دوسرا ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے مہاراجہ کو، اس معاہدہ الحاق کا حصہ ہیں جس پر مہاراجہ نے دستخط کیے۔ پہلے خط میں مہاراجہ نے الحاق کی پیشکش کی اور دوسرے میں ماؤنٹ بیٹن نے اس پیش کش کو قبول کیا۔ یہ دو خط مل کر ایک بین الاقوامی معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہاراجہ کے الحاق والے خط کو اپنے بل بوتے پر مکمل اور حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا جب تک اسے انڈین گورنر جنرل کے جواب اور اس میں شامل رائے شماری کی شرط کے ساتھ نہ رکھا جائے۔

    ایک خط میں انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی پیشکش ہے اور دوسرے میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس پیشکش کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کیا گیا۔

    برٹش لائبریری میں محفوظ دستاویزات ’مینیوسکرپٹس اینڈ یورپین پرائیویٹ پیپرز‘ کے مطابق انڈیا کو اس علاقے کے ہاتھ سے نکل جانے کا ڈر تھا اور اس وجہ سے اس نے قتل عام کر کے مسلمانوں کی اکثریت کو کشمیر سے نکالنے کی کوشش کی۔ ان دستاویزات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس کا مقصد کسے بھی رائے شماری میں انڈیا کی فتح کو یقینی بنانا تھا۔

    لیکن جب انڈین فوج نے کشمیر پر حملہ کیا تو اس وقت یہ کہا گیا کہ اس کا مقصد جمہوریت کا تحفظ اور ایک منصفانہ رائے شماری کے لیے حالات سازگار بنانا تھا۔ انڈیا نے یہ بھی کہا کہ اس کی فوف دراصل قبائیلی حملے کے خلاف مہاراجہ کی مدد کرنے کے لیے کشمیر میں داخل ہوئی۔

    مصنف الیسٹئیر لیمب اپنی کتاب ’انکمپلیٹ پارٹیشن ۔ دی جینیسس آف دی کشمیر ڈسپیوٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ کشمیر پر حملے سے پہلے انڈیا نے مکمل تیاری کر لی تھی اور یہ بھی کہ لیفٹیننٹ جنرل ڈڈلی رسل نے ذاتی طور پر اس منصوبہ بندی کی نگرانی کی، جبکہ ماؤنٹ بیٹن نے بھی مدد کی۔ نہرو نے رائے شماری کے وعدے کو دہرایا اور یہ بھی کہا کہ ایسا کرنا انڈیا پر لازم ہے۔

    ماؤنٹبیٹن نے رائے شماری کی تجویز پیش کرنے میں دیر کر دی

    مورس ۔جونز جون سے لے کر اگست 1947 تک ماؤنٹ بیٹن کے آئینی مشیر تھے۔ انھوں نے رائے شماری کے بارے میں جون میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں رائے شماری ایک ’سوچا سمجھا آپشن‘ تھا تاہم یہ ’ماؤنٹ بیٹن کے ایجنڈے میں بہت اہم نہیں تھا۔‘

    اور جب ماؤنٹ بیٹن نے آخر کار اکتوبر میں رائے شماری کی تجویز پیش کی تو بہت دیر ہو چکی تھی، اس وقت وہ وائس رائے نہیں تھے، اور ان کے پاس رائے شماری کو یقینی بنانے کا اختیار نہیں تھا۔

    27 اکتوبر 1947 کو لیفٹننٹ کرنل دیوان رنجیت سنگھ کی قیادت میں فرسٹ سکھ بٹالیئن کے فوجیوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے کشمیر میں اتارا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے اس علاقے پر کنٹرول کے لیے فوج بھیج دی جس پر قبائیلوں نے قبضہ کر لیا تھا اور اس طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان پہلے جنگ کا آغاز ہوا، ایک ایسے وقت میں جب دونوں فوجوں کی قیادت برطانوی افسران کے ہاتھوں میں تھی۔

    جب جنگ تھمی تو انڈیا نے سرینگر، جموں اور لداخ سمیت کشمیر کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری طرف پاکستان نے کشمیر کے مغربی حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، جسے انہوں نے آزاد کشمیر کا نام دیا اور جس کا دارالحکومت مظفرآباد تھا۔

    انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کے بارے میں رائے

    کشمیر کے معاہدہ الحاق کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال پہلی بار ایک ٹیلی گرام میں اٹھایا گیا، جو امریکی وزیر خارجہ کے محکمہ برائے جنوب مشرقی ایشیا کی طرف سے برطانوی فارن آفس کو بھیجا گیا۔ اس میں دیگر موضوعات کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ ’اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پاس انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت پر سوال کی کتنی گنجائش ہوگی؟‘

    سر جیرلڈ فٹزماریس برطانوی فارن آفس میں قانونی مشیر تھے۔ اس ٹیلی گرام کے جواب میں انہوں نے 25 فروری 1948 کو اپنے جواب میں لکھا، ’میرے خیال میں سکیورٹی کونسل کے لیے یہ طے کرنا صحیح ہوگا کہ انڈیا کے ساتھ کشمیر کا الحاق جن حالات میں ہوا، وہ امن و امان اور سکیورٹی کو جو خطرہ لاحق ہوا ہے اور اب بھی ہے، در اصل اس کی بنیادی جڑ ہے، اور یہ بھی کہ امن اور سکیورٹی کو تب تک بحال نہیں کیا جا سکتا جب تک اس پر دوبارہ نظر نہ ڈالی جائے۔۔

    ایسی صورت میں میں یہ کہوں گا کہ یہ فیصلہ سکیورٹی کونسل کے اختیارات سے باہر نہیں کہ اس معاملے پر نظر ثانی کی جائے اور کشمیر کے الحاق کا معاملہ پھر چاہے وہ انڈیا کے ساتھ ہو یا پاکستان کے ساتھ، اس فیصلے کی بنیاد صرف مہاراجہ کے فیصلہ سے بڑھ کر ہونی چاہیے، بھلے ہی کشمیر کا آئین مہاراجہ جو ایسا فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہو۔‘

    ستائیس فروری 1948 کو سر جی فٹزماریس نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935اور پھر 1947 کے انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ پر اپنی ابتدائی رائے دیتے ہوئے لکھا ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی انڈین رجواڑے کے حاکم نے، اپنی رضا سے، آزادانہ طور پر، بنا کسی دباؤ یا دھوکے کے الحاق کا اعلان کر دیا اور اس اعلان کو اس ملک کے گورنر جنرل نے قبول کر لیا، تو پھر یہ الحاق جائز ہے، بھلے ہی اس رجواڑے کے آئین کے تحت اس حاکم کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہو یا نہیں۔

    یعنی اگر مہاراجہ نے آزادانہ طور پر، اپنی رضا سے انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا ہوتا اور اسے انڈیا کے گورنر جنرل نے قبول کر لیا ہوتا، تو اس صورت میں یہ الحاق بین الاقوامی سطح پر جائز ہوتا، اس بات سے قطع نظر کہ مہاراجہ کے پاس کشمیر کے آئین کے تحت ایسا کرنے کا اختیار تھا یا نہیں۔

    اس نظریہ کے تحت سر جی فٹزماریس نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر مہاراجہ نے اپنی مرضی سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا تو اس صورت میں الحاق تکنیکی طور پر جائز ہے۔ تاہم مہاراجہ پر صرف انڈیا کی ہی طرف سے نہیں بلکہ گطرنر جنرل ماؤنٹبیٹن کی طرف سے بھی دباو تھا اور اس کے ساتھ ساتھ گورنر جنرل نے الحاق کی پیشکش کو مشروط طور پر قبول کیا تھا۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ معاہدہ الحاق اپنے آپ میں ان وجوہات کی بنا پر جائز نہیں۔

    ایک دوسرے نظریے سے اسی معاملے کو دیکھتے ہوئے، سر جی فٹزماریس نے برطانوی بالادستی ختم ہو جانے پر رجواڑوں کے آزاد ریاستیں بن جانے کے امکان پر بھی غور کیا۔ انہوں نے لکھا، ’یعنی معاملہ ایک آزاد ریاست کا دوسری آزاد ریاست کے ساتھ الحاق کا ہے۔ میرے خیال میں ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935، جسے1927 کے انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ میں محفوظ کیا گیا ہے، محض اس عمل کی نشاندہی کرتا ہے جو الحاق کے لیے لازمی ہے، لیکن اس کا الحاق کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘

    ’انڈیا کے ساتھ کشمیر کا الحاق بالکل ناجائز‘

    1949 میں کامن ویلتھ رلیشنز آفس کی درخواست پر سر جی فٹزماریس نے (برطانوی فارن آفس کے قانونی مشیر کی حیثیت سے) انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق پر اپنی ریوائیزڈ رائے دی۔ اس بار انہوں نے اعتراف کیا کہ 27 فروری 1948 کی اپنی ابتدائی رائے دیتے ہوئے وہ کچھ حقائق سے ناآشنا تھے۔ نئے شواہد کی بنا پر انہوں نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ کشمیر کا الحاق دراصل ناجائز تھا۔

    انہوں نے کہا ’مجھے ایک ایسے معاملے پر سوچ سمجھ کر اپنی رائے دینے کو کہا گیا ہے جس پر میں پچھلے سال اپنی ابتدائی رائے دی چکا ہوں، یعنی انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے جائز ہونے کا معاملہ۔۔ میں یہاں حقائق کو نہیں دہراؤں گا۔۔ تاہم کچھ حقائق سے میں پچھلے سال اس وقت آشنا نہیں تھا جب میں نے اپنی ابتدائی رائے دی تھی اور ان حقائق کی روشنی میں اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انڈیا کے ساتھ کشمیر کا الحاق بالکل ناجائز تصور کیا جا سکتا ہے، جب تک کہ یہ پتا نہ چلے (اور مجھے نہیں لگتا کہ ایسی کوئی بھی اطلاع ہے) کہ پاکستان نے اس وقت تک کشمیر کے ساتھ اپنے سٹینڈ سٹل معاہدے کی ایسی خلاف ورزیاں کی تھیں جن سے وہ معاہدہ ختم ہو گیا ہو۔

    اس وقت کے برطانوی اٹارنی جنرل سر ہارٹلی شا کراس نے20 جون 1949 کو فٹزماریس کو لکھے اپنے خط میں ان کی رائے کے تین قانونی نکات سے اتفاق کیا: پہلا یہ کہ۔۔۔ مہاراجہ الحاق کی وقت آزاد نہیں تھے؛ دوسرا یہ کہ۔۔۔ مہاراجہ کے پاس ریاست کا کنٹرول نہیں تھا اور وہ الحاق کو یقینی بنانے کی حالت میں نہیں تھے اور تیسرا یہ کہ۔۔۔ الحاق کی پیشکش کو مشروط قبولیت دی گئی تھی۔

    سر جی فٹزماریس کی قانونی رائے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر کا رجواڑہ قانونی طور پر 1947 میں ختم نہیں ہوا۔ یہ واضح ہے کہ برطانیہ اور انڈیا دونوں نے ہی کشمیر میں رائے شماری کرانے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم تب سے اب تک انڈیا اپنے اس قانونی عہد سے مکر چکا ہے۔

    سر جی فٹزماریس نے اپنی ریوائیزڈ رائے میں کشمیر کا موازنہ بالٹک ریاستوں سے کیا اور یہ بھی کہا کہ جائز الحاق نہ ہونے کی صورت میں یہ دراصل بزور بازو یا فوجی طاقت کی بنا پر الحاق کا کیس ہے۔

    فوجی طاقت کے زور پر ہونے والے اس الحاق کو اب 73 برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران کشمیر کی شاہی ریاست کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 اور کے تحت انڈیا کا آئینی طور پر حصہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

    تاہم انڈیا نے پانچ اگست 2019 کو یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا۔

    بشکریہ بی بی سی اردو

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS