نئی دہلی : اترپردیش کے ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لئے بھومی پوجن کے بعد اب مسجد کی تعمیر کی قواعد بھی تیز ہوگئی ہے۔ ایودھیا شہر کے باہر پانچ ایکٹر زمین پر مسجد کے نام کو لے کر ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔ مگر ایک بات تقریبا طے ہے کہ اس مسجد کا نام بابری مسجد نہیں رکھا جائے گا۔اطلاعات کے مطابق اس مجوزہ مسجد کا نام دھنی پور گائوں کے نام پر رکھا جائے گا۔ جہاں پر یہ واقع ہے۔ مسجد کی زمین کی دیکھ بھال کرنے والے سینئر افسر نے اس کی جان کاری دی۔
مجوزہ مسجد اور دیگرسہولیات کے انچارج انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (IICF)کے 15 رکنی ٹرسٹ نے بتایا کہ مجوزہ ناموں کی فہرست میں مسجد دھنی پور سرفہرست ہے۔ دیگر تجاویز میں امن مسجد اور صوفی مسجد شامل ہیں۔اطلاعات کے مطابق سنی مرکزی وقف بورڈ کو حکومت کی جانب سے 5 ایکڑ اراضی تحصیل سوہوال کے گاؤں دھنی پور میں مسجد کی تعمیر کے لئے الاٹ کی گئی ہے۔
انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (IICF)کے ترجمان اطہر حسین نے بتایا ہے کہ ہمیں مسجد کے نام کے بارے میں مشورے مل رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے 'مسجد دھنی پور'نام ہماری ترجیحی فہرست میں سب سے اہم ہے۔ زیادہ امید ہے کہ اس مسجد کا نام 'مسجد دھنی پور'رکھا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اس پانچ ایکٹر اراضی پرایک مسجد،ایک اسپتال،ایک کمیونٹی کچن اور ایک تعلیمی مرکز کی تعمیر کا منصوبہ ہے ۔
اترپردیش حکومت نے اس مہینے ایودھیا سے 20 کلومیٹر دور یوپی سنی مرکزی وقف بورڈ کو زمین دے دی۔ سپریم کورٹ نے نومبر 2019 کورام مندر کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں 2.77 ایکڑ جگہ دینے کا حکم دیا تھا،عدالت نے یوپی سرکار کو مسجد کی تعمیر کے لئے متبادل جگہ پر پانچ ایکڑ اراضی دینے کا حکم دیا تھا۔
یو پی ایس سی ڈبلیو بی سے منظورشدہ ٹرسٹ نے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ نئی مسجد کو 16 ویں صدی کے متنازعہ ڈھانچے سے جوڑنا نہیں چاہتے تھے،جسے کارسیوکوں کے ہجوم نے 6 دسمبر 1992 کو مسمار کردیا تھا۔ حسین نے کہا کہ بورڈ شروع سے ہی اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس مسجد کا نام مغل بادشاہ بابر کے نام پر نہیں رکھا جائے گا۔
ٹرسٹ کے ایک سینئر عہدیدار نےبتایا کہ ٹرسٹ کسی بھی تنازع سے دور رہنا چاہتا ہے لہذا کسی بھی شہنشاہ کے نام پر اس مسجد کا نام جوڑنے کے حق میں نہیں ہے۔ حسین نے کہا کہ کسی بھی معاملے میں یہ روایت ہے کہ مساجد کا نام اکثر اس جگہ کے نام پر رکھا جاتا ہے۔