کشمیری جنگجوؤں کیلئے نئی سرنڈر پالیسی تجویز،ذہنی اور پیشہ ورانہ تربیت کیلئے بیرون کشمیر آبادی پر غور

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    اس وقت جب جموں کشمیر میں جنگجوؤں کا دبدبہ تقریباََ ختم ہوچکا ہے اور انکے خلاف جاری آپریشن پوری شدت کے ساتھ جاری ہے،فوج نے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہونے والوں کیلئے ایک خاص اسکیم تجویز کی ہے۔ نئی سرنڈر اسکیم کے تحت ہتھیار ڈالنے والے جنگجوؤں کو جموں کشمیر سے باہر لیجاکر عارضہ طور آباد کرنے کا منصوبہ ہے جسکے تحت انکی ’’ذہنی‘‘ اور پیشہ ورانہ تربیت کرنے کا انتظام کیا جائے گا۔
    فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر،لیفٹننٹ جنرل بی ایس راجو، کا حوالہ دیتے ہوئے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرس نے انکشاف کیا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو جنگجوئیت سے دور لیجانے کیلئے ایک نئی اسکیم بنائی جارہی ہے۔ ایجنسی کے مطابق راجو نے کہا ہے کہ فوج ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہونے والے جنگجوؤں کی بہتر طور باز آبادکاری کی تجویز پیش کرچکی ہے تاکہ یہ اسکیم کامیاب ہو اور جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالکر ’’قومی دھارے می شامل‘‘ ہونے پر آمادہ کیا جاسکے۔
    اس رپورٹ کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی جموں کشمیر میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن تیز کردیا گیا ہے اور جنگجوؤں کو کئی مہینوں سے شدید نقصان پہنچا ہے ،فوج و دیگر متعلقین جنگجوئیت کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ انسدادِ جنگجوئیت سے وابستہ اداروں کا ماننا ہے کہ اگر موجودہ حالات میں مقامی جنگجوؤں کو سرنڈر کا موقعہ فراہم کیا جائے اور انہیں بہتر کل کی امید دلائی جاسکے تو ممکن ہے کہ وہ لوٹ آںے پر آمادہ ہوجائیں۔بتایا جاتا ہے کہ سابق سرنڈر پالیسیوں کی ناکامی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فوج نے تجویز کیا ہے کہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہونے والوں کو عارضی طور پر بیرونِ جموں کشمیر ’’آباد‘‘ کیا جائے اور اس دوران انکی ’’ذہنی اور پیشہ ورانہ‘‘ تربیت کا انتظام کیا جائے تاکہ ایک تو وہ ’’شدت پسندانہ خیالات‘‘ سے دور ہوں اور دوسرا وہ روزگار کمانے کے بھی قابل ہوجائیں۔
    جموں کشمیر میں جنگجوئیت کے تیس سالہ دور میں سرکاری اداروں نے کئی بار ’’سرنڈر پالیسیاں‘‘ مرتب کیں تاہم انکا بہت مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں ایک سرنڈر پالیسی جاری کروائی تھی جسکے تحت نہ صرف مقامی طور جنگجوؤں کو سرنڈر ہونے کیلئے حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ ہتھیاروں کی تربیت کی غرض سے سرحد پاکر جاکر وہیں کے ہوکے رہے سینکڑوں جنگجوؤں کو بھی بہتر مستقبل کے وعدے کے ساتھ راہداری دی گئی تھی۔ اس پالیسی سے ’’مستفید‘‘ ہونے والوں کی تاہم شکایت ہے کہ سرکار نے حسبِ وعدہ انکی باز آبادکاری کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا اور انہیں کسمپرسی کی زندگی گذارنے کیلئے مجبور چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت برسوں بعد سرحد پار سے لوٹنے والے ایک سابق جنگجو بشیر احمد (تبدیل شدہ نام) نے بتایا ’’سرنڈر کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں کیونکہ حکومت نے یہاں بھی وہی وعدہ خلافی کی کہ جسکے نتیجے میں خود مسئلہ کشمیر پیدا ہوچکا ہے۔ہمیں بہتر مستقبل کا وعدہ دیا گیا تھا لیکن بعدازاں ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کہیں کے نہ رہے،ایک طرف لوگ ہمیں غدار تصور کرتے ہیں اور دوسری جانب سرکار اور اسکی ایجنسیاں بھی ہمیں کوئی راحت پہنچانے کی بجائے الٹا ہمیں وقتاََِ فوقتاِِ تنگ کرتی ہیں‘‘۔
    جموں کشمیر پولس کے ایک افسر کا کہنا ہے ’’مجھے نئے پالیسی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن اگر سابق پالیسیوں کے نقائص کو مدِ نظر رکھتے اور انہیں دور کرتے ہوئے کوئی پالیسی بنائی جارہی ہو تو ہوسکتا ہے کہ اسکا کوئی نتیجہ برآمد ہوسکے‘‘۔ تاہم انہوں نے، انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر، کہا کہ کشمیر کے موجودہ جنگجو،جنکی کُل تعداد پونے دو سو اور دو سو کے درمیان بتائی جاتی ہے، آسانی کے ساتھ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ماضی میں ایسے بھی کئی واقعات پیش آئے ہیں کہ سرنڈر کرنے کے کچھ وقت بعد ان لڑکوں نے دوبارہ بندوق اٹھائی،ہوسکتا ہے کہ کئی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ سرنڈر کے بعد ان لوگوں کی باز آبادکاری کا انتظام نہیں کیا جاسکا‘‘۔
    وادیٔ کشمیر میں کئی مہینوں سے جنگجوؤں کے خلاف بڑی شدت کے ساتھ آپریشن جاری ہے جسکے دوران حالیہ مہینوں میں قریب دو سو جنگجوؤں کو مارا جاچکا ہے تاہم فوج اور پولس ان آپریشنز سے متعلق بیانات میں اکثر یوں کہتی ہے ’’محاصرے میں آئے جنگجوؤں کو سرنڈر ہونے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے گولی چلا کر جھڑپ چھیڑ دی اور مارے گئے‘‘۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS