بزرگ اردو صحافی اور روزنامہ عکاس کے ایڈیٹرو مالک کریم رضا مونگیری کا آج صبح انتقال ہوگیا ۔ وہ 75 برس کے تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور داماد ہیں۔
اہل خانہ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے ان کی طبیعت علیل چل رہی تھی۔ آج صبح کوئی پونے دس بجے انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
اردو کے صحافتی، ادبی اور علمی حلقے کریم رضا مونگیری کے اچانک جدا ہونے سے سخت صدمے میں ہیں۔
مرحوم کے بھتیجے و داماد کاشف رضا مونگیر ی نے بتایا کہ کریم صاحب کو کوئی ایک ہفتے سے بخار تھا۔ مجموعی طور پر ان کی حالت مستحکم تھی اور معالج کے نزدیک تشویش کی ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ البتہ کمزوری کافی بڑھ گئی تھی۔
کریم رضا مونگیری اپنی زندگی کی چھٹی دہائی سے بیٹے اور داماد کے سرپرست بنے ہوئے تھے۔ بنگال کی اردو صحافت میں ان کی حیثیت ایک ستون کی تھی۔
روزنامہ عکاس نے ان کی ادارت میں گولڈن جبلی منایا۔ یہ اخبار گزشتہ 55 برسوں سے پابندی کے ساتھ شایع ہورہا ہے۔ کلکتے کے اردو اخبارات میں اشاعت کے اعتبار سے عکاس کی حیثیت ایک انسی ٹیوشن کی تھی۔ یہاں سے وابستہ کئی صحافیوں نے قومی صحافت میں اپنی شناخت بنائی اور قومی اور بین اقوامی سطح پر مشہور ہوئے۔ کریم رضا مونگیری نے اپنے اخبار کو تجارتی اعتبار سے نہ صرف مستحکم کیا تھا بلکہ دوسروں کے لئے وہ ہمیشہ اس رُخ پر صحت مند طریقے سے نظیر رہے۔
کریم رضا مونگیر ی کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں نے بتایا کہ وہ بڑے ہی زندہ دل انسان تھے اور ورکنگ صحافیوں کے ساتھ ان کا سلوک مثالی ہوا کرتا تھا۔ روایتی مالکانہ استحصال کا وہ کبھی حصہ نہیں بنے اور تعلق جوڑنے میں جہاں وہ حسن سلوک کے قائل تھے وہیں بحالت مجبوری قطع تعلق میں کسی طرح کی بدسلوکی کو کبھی حائل ہونے نہیں دیا۔
تمام اخباری حلقوں میں وہ یکساں مقبول تھے۔ پروگراموں اور کانفرنسوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے تھے۔ ابھی دو ہفتہ قبل بھی مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی ایک پریس کانفرنس میں وہ بہ نفس نفیس موجود تھے۔
شہزادہ سلیم کی ادارت میں 1966 میں اشاعتی سفر شروع کرنیوالے ”عکاس“کو بلندیوں تک پہنچانے میں کریم رضا مونگیری نے اہم کردار ادا کیا۔ فلم ویکلی سے پہلے اس اخبار کو انہوں نے شام نامہ کیا اور اس کے بعد روزنامہ۔1971میں روزنامہ عکاس کریم رضامونگیری کی ملکیت میں آگیا تھا۔
بہار کے ضلع مونگیرسے تعلق رکھنے والے کریم رضا مونگیری کی تعلیم و تربیت کلکتہ میں ہوئی اور زمانہ طالب علمی میں صحافت سے وابستہ ہوگئے تھے،روزنامہ آزاد ہند، عصر جدید و دیگر اخبارات میں انہوں نے ترجمہ نگار اور صحافی کی حیثیت سے کام کیا۔ریلوے اور دیگر حکومتی اداروں کے اشتہارات کی ترجمہ نگاری میں انہیں مہارت کاملہ حاصل تھی۔
تدفین بعد نماز عصر سولہ آنا قبرستان میں عمل میں آئے گی۔