لگتا ہے کہ اترپردیش میں قانون کی بالادستی دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہے۔ یو پی پولیس ’آتم نربھر‘ہوگئی ہے اور مجرموں کی سزااور جزا کا فیصلہ بھی خود ہی کرنے لگی ہے۔ اسے عدالت اور قانونی عمل کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ مجرموں کو انکائونٹر میں ہلاک کرکے ایسے تمام راستے ہی بند کردینا چاہتی ہے کہ ان سے تفتیش ہو، پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں ا ور قانونی عمل شروع ہو۔خدشات کے عین مطابق 8پولیس اہلکاروں کو موت کی نیند سلا دینے والا وکاس دوبے 8دنوں بعد خود پولیس تصادم میں مارا جا چکا ہے۔وکاس دوبے ایک پیشہ ور خونخوار مجرم تھا جس کے خلاف یوں تو سیکڑوں معاملات درج تھے لیکن گزشتہ دنوں کانپور میں8پولیس والوں کی ہلاکت نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیاتھا۔ جمعرات کو وکاس دوبے مدھیہ پردیش کے اجین سے گرفتار کیاگیا اور جمعہ کی صبح پولیس نے اسے انکائونٹر میں مارگرایا۔ پولیس انکائونٹر کی جو کہانی بیان کی جارہی ہے وہ کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے، کہاجارہاہے کہ وکاس دوبے کو اجین سے کانپور لے کرآرہی گاڑی حادثہ کا شکار ہوگئی اور وکاس دوبے ایک پولیس والے کا پستول چھین کر فرارہونے لگا ،اسے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ نہیں مانا مجبوراً پولیس کو انکائونٹر کرنا پڑا۔اس سے پہلے بھی وکاس کے ساتھی پربھات کو عین اسی طرح انکائونٹر میں ہلاک کیاگیاتھا۔اس کے بعد سے ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیاجانے لگاتھا کہ وکاس دوبے کو بھی کہیں اسی راستہ کا مسافر نہ بنادیاجائے گا۔ زیادہ تر لوگ اسے فرضی انکائونٹر قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس انکائونٹر پر طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی کے لیڈران اسے اسکرپٹیڈ اسٹوری بتارہے ہیں۔اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی یوگی حکومت پراس انکائونٹر کے سلسلے میں الزامات لگائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انکائونٹر حکومت کو بچانے کی کوشش ہے۔ کار نہیں پلٹی ہے بلکہ حکومت پلٹنے سے بچائی گئی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ وکاس دوبے نے پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہونے کی کوشش کی ہو لیکن یہ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ اسے زندہ حالت میں عدالت کے روبرو حاضر کرتی اور قانون اپنی پوری طاقت کے ساتھ روبہ عمل آتا اور اس کے جرائم کے خلاف فیصلہ صادر کرتا۔ جس قانو ن سے وہ بچ کربھاگ رہاتھا، اس قانون کے سامنے اسے زندہ حالت میں دست بستہ پیش کرناپولیس کا کام تھا۔ یوپی پولیس نے اجین سے جب اسے اپنی تحویل میں لیاتھا تو اس کی ذمہ داری اسے زندہ رکھنے کی تھی، تاکہ اس سے پوچھ گچھ ہو اور اس کی سرپرستی کرنے والے بیورو کریسی اور سیاست دانوں کے نام سامنے آئیں۔ یہ پتہ چل سکے کہ وکاس دوبے گزشتہ30برسوں سے کس طرح اترپردیش میں مجرمانہ کارروائی کرنے کے بعد بھی پولیس اور قانون کی گرفت سے بچتارہاتھا۔اس کے سیاسی سرپرستوں اورآقائوں کے نام سامنے آتے۔ یہ پتہ چل پاتا کہ اسے کن سیاست دانوں کی پشت پناہی حاصل تھی جو اسے پولیس اور قانون سے بچاتے رہے تھے۔وہ پولیس والے کون تھے جنہوں نے اسے پل پل کی خبر پہنچائی اور 8 پولیس والوں کی ہلاکت کا سبب بنے تھے۔ تاہم یو پی پولیس نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
وکاس دوبے کے انکائونٹر کو کسی عام مجرم کے انکائونٹر کی طرح بھی نہیں لیاجاسکتا ہے۔وکاس دوبے کا معاملہ باقی دوسرے مجرموں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اس نے تھانہ کے اندر ایک ایسے شخص کا بھی قتل کیاتھا جسے وزیرمملکت کا درجہ حاصل تھا، اس نے کانپور ہی نہیں بلکہ اترپردیش میں اپنی مساوی حکومت بنالی تھی۔
اس معاملہ پر شروع دن سے ہی پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔اس کے باوجود یوپی پولیس نے جب اسے اجین میں اپنی تحویل میں لیاتھا تواس کے ہاتھ کھلے ہوئے تھے۔سوال اٹھتا ہے کہ اپنے 8ساتھیوں کے قتل کے مجرم کو پولیس اس طرح کیوں لے جارہی تھی، اس نے اس خطرناک مجرم کو ہتھکڑی پہنانا کیوں ضروری نہیں سمجھا۔ پولیس جب کسی مجرم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے تو ہرطرح سے چوکنا رہتی ہے مجرم کو دائیں بائیں جھانکنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ پھر وکاس دوبے کے معاملے میں یو پی پولیس اتنی لاپرواہ کیسے ہوگئی کہ وہ فرار ہوتے وقت اچانک پولیس والوں سے پستول چھین لے اور ہتھیار نہ ڈالے۔ایک سوال اور بھی کھڑا ہوتا ہے کہ جو مجرم ایک رات پہلے خودسپردگی کرتا ہو وہ اگلی صبح پولیس کی گرفت سے فرار کیوں ہوناچاہے گا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب یو پی پولیس ہی دے سکتی ہے۔ لیکن یوپی پولیس وکاس دوبے کے انکائونٹر کے ساتھ ہی ان سوالوں کے جواب کا بھی انکائونٹر کرگئی ہے جو خود یوپی پولیس کی قانونی بالادستی کو ثابت کرنے کیلئے اہم تھے۔
[email protected]
وکاس دوبے انکاؤنٹر!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS