محمد حنیف خان
جمہوری اور تانا شاہی حکومت میںسب سے بڑا اور بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک آئین کے مطابق کام کرتی ہے اور دوسری تاناشاہ کی خواہشات کو پورا کرتی ہے۔بعض مرتبہ جمہوری نظام میں بھی شک ہونے لگتا ہے کہ یہ جمہوری ہے یا تانا شاہی کیونکہ جو لوگ حکومت میں ہوتے ہیں وہ اپنے طرز عمل سے اس کو تانا شاہی بنا دیتے ہیں۔یہ بات اور ہے کہ جب کبھی ایسی حکومتوں کو عدالت میں جواب دینا ہوتا ہے تو وہ ایسا گول مول جواب دیتی ہیں کہ چت اور پٹ دونوں اسی کی ہوتی ہے لیکن حقیقت عوام کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتی ہے۔جمہوری نظام حکومت میں صرف قانون کی بالادستی ہوتی ہے۔ہر مجرم کے لیے آئین میں قوانین موجود ہیں، جن کے مطابق اس کے خلاف کارروائی جاتی ہے۔جمہوری نظام میں کسی کا گناہ چھوٹا یا بڑا فردکی بنیاد پرنہیں ہوتا بلکہ گناہ کی نوعیت سے سزاؤں کا تعین کیا جاتا ہے۔ایسے میں ذاتی/شخصی یا مخصوص طبقے کو آئین کے برعکس سزائیں نہیں دی جا سکتی ہیں۔حکومت کو یوں بھی کسی کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں ہے خواہ وہ کتنا بھی بڑا گنہگار ہو۔اس عمل کے لیے عدالتیں قائم ہیں،جہاں بیٹھے ہوئے جج اس کا فیصلہ کرتے ہیںلیکن اتر پردیش میں جب سے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت آئی ہے وہ قولا و فعلا دونوں طرح سے جمہوری نظام کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کی ذمہ داری بھی مقننہ نے لے رکھی ہے جو کسی جمہوری نظام حکومت کے لیے مناسب نہیں ہے۔بی جے پی لاء اینڈ آرڈر /نظم و نسق کے مسئلے کی وجہ سے ہی اقتدار میں آئی تھی۔اس نے نہ صرف اپنی ریلیوں میں بہترین نظم و نسق کا وعدہ کیا تھا بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد سخت تیور بھی دکھائے تھے۔یہاں تک کہ کئی بار وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اسٹیج سے بھی یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ ’’ٹھونک دیں گے‘‘یا پھر ’’جو بولی سے نہیں سمجھے گا وہ گولی سے سمجھے گا‘‘ان کے اس طرح کے بیانات پر اپوزیشن اور خاص طور پر اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے ان کو نشانہ بنایا اور کہا بھی کہ یہ پارلیمانی زبان نہیں ہے۔کسی وزیراعلیٰ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کی زبان کا استعمال کرے۔اس کے برعکس وہ اپنی اسی پالیسی پر کاربند رہے پھر بھی نظم و نسق میں وہ اصلاح نہ کرسکے اور بالآخر کانپور میں آٹھ پولیس اہلکاروں کو ایک مافیا نے شہید کردیا،جس کے بعد پولیس نے جو کارروائی کی ہے وہ بھی سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔
آٹھ پولیس اہلکاروں کی شہادت نے واضح کردیا کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ صرف زبانی دعوے کرتے ہیں کہ غنڈے یا تو جیل میں ہیں یا پھر وہ ریاست چھوڑ کر با ہر جاچکے ہیں۔ان کے اس دعوے کو اس مافیا غنڈے نے ایک رات میں ہوا کی طرح جب اڑا دیا اور ان کا غبارہ خالی ہوگیا تو ایک بار پھر اپنے اسی پرانے تیور میں دکھائی دیے۔پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ قانون کے مطابق گنہگار کو سخت سے سخت سزا دلائی جا ئے گی لیکن اس سے قبل کہ وہ گرفت میں آتا پولیس نے اس کے مکان کو منہدم کردیا۔ گاڑیوں کو جے سی بی سے توڑ دیا۔یہ انہدامی کارروائی بتاتی ہے کہ پورا نظام اس ایک شخص کے آگے فیل ہوچکا ہے۔ میڈیا میں ابھی تک سرکار نے اس انہدامی کارروائی کا جواز نہیں بتایا ہے جس کی وجہ سے ان کی اس کارروائی پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں کہ آخر حکومت نے ایسا کیوں کیا؟کس ضابطے کو بنیاد بنا کر یہ کارروائی کی گئی؟کیا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی حکومت انہدامی کارروائی میں زیادہ یقین رکھتی ہے ؟کیونکہ اس سے قبل بھی اس کا روپ سامنے آچکا تھا جب سی اے اے کے خلاف مسلمان سڑکوں پر نکلے تھے۔ایک طرف جہاں مظاہرین سے تباہ ہوئی عوامی املاک کا ہرجانہ وصول کیا گیا، ان کے پوسٹر چوراہوں پر لگائے گئے، وہیں پولیس نے مظاہرین کے خلاف جو کارروائی کی اس میں سب سے زیادہ انہدامی کارروائیاںہی شامل تھیں۔ مغربی اترپردیش کے مظفر نگر اور بجنور سمیت دوسرے اضلاع میں پولیس نے گھروں میں گھس گھس کر عوام کے گھروں کے دروازے، کولر، فریج اور گیس چولہے تک توڑ دیے تھے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی ہاسٹلوں کے باہر کھڑی طلبا کی گاڑیوں کو پولیس نے توڑ دیا تھا جن کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔بہرائچ کے ایک مدرسے کے ذمہ دار جو مظاہرے میں پیش پیش تھے، ان کی گرفتاری کے لیے جب پولیس ان کے گھر گئی تو بیڈ ،نل اور دروازے توڑ دیے، اس کے باوجود وصولی بھی ان ہی مظاہرین سے کی گئی کیونکہ وزیراعلیٰ نے سی اے اے کے خلاف مظاہروں سے قبل ہی اعلان کیا تھا کہ ’’بدلہ لیا جائے گا‘‘اس طرح حکومت نے مظاہرین سے دو سطحی بدلہ لیا حالانکہ متعدد ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش میں رہیں جنہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ خود پولیس اہلکار سڑک کے آس پاس واقع مکانات میں کھڑی گاڑیوں کو اینٹ پتھروں اور اپنے سرکاری ڈنڈوںسے توڑ رہے ہیں۔جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔
کانپور میں جو واقعہ ہوا اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کرسکتا ہے، اس کے باوجود پولیس نے جو کارروائی کی ہے جمہوری نقطہ نظر سے اس کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر کسی نے گناہ کیا ہے تو اس کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر اس کی گرفتاری میں کامیابی نہیں مل رہی ہے تو عدالت سے رجوع ہو کر املاک کی قرقی کا حکم نامہ حاصل کیا جائے لیکن کسی بھی طرح سے مکان ا ور گاڑیوں کو تباہ و برباد نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کارروائی کے بعد متعدد سابق پولیس افسران نے اس پر سوالیہ نشان لگائے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق حکومت اس طرح کی کارروائی کر رہی ہے۔اگر حکومت کے اس عمل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جائے تو وہ عدالت میں جواب نہیں دے سکے گی۔اسی کے ساتھ ایک بات اور سامنے آئی ہے کہ جو گھر منہدم کیا گیا، وہ گرام سماج کی زمین پر تھا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو اس سے قبل سرکاری محکمے کیا کر رہے تھے؟جبکہ اس کی والدہ نے حکومت کے اس عمل پر سوالیہ نشان لگایا ہے کہ جو مکان ان کے سسر نے بنوایا تھا، پولیس نے اس کو منہدم کیوں کیا ؟گاڑیاں جے سی بی سے کیوں توڑ دی گئیں؟کیا حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ یہ بات اور ہے کہ حکومت کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں وہ عدالت میں جو بیان دے اور شواہد پیش کرے، وہ اس مکان کے غیر قانونی ہونے کے ہوں لیکن اس کے باوجود سوالیہ نشان تو اپنی جگہ قائم ہی رہتا ہے۔
کسی بھی حکومت کو انتقامی اور انہدامی کارروائی کا حق نہیں ہوتا ہے۔اگر سی اے اے کے دوران اعلان کے مطابق انتقامی کارروائی کے خلاف مضبوطی کے ساتھ پیروی کی جاتی اور پولیس کے ذریعہ جو غیر قانونی عمل کیا گیا تھا، اس کے شواہد پیش کیے جاتے تو پولیس اور انتظامیہ اس طرح کا غیر قانونی عمل نہیں کر سکتی تھی لیکن چونکہ پوری ریاست میں پولیس نے ایسا خوف و دہشت کا ماحول بنا دیا تھا کہ کسی میں اس بات کی ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکے کیونکہ اس بات کا ڈر تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کو دوسرے مقدموں میں پھنسا کر اس کی زندگی تباہ کردی جائے گی۔جب اس طرح کا خوف پھیلا دیا جائے تو ظاہر سی بات ہے کہ جمہوریت اپنے آپ دم توڑ دیتی ہے۔جمہوری نظام حکومت میں گنہگاروں کے بھی اپنے حقوق ہوتے ہیں ماورائے عدالت فیصلے کوئی نہیں کرسکتا ہے۔مقننہ کا کام قانون سازی ہے، انتظامیہ کا کام گنہگاروں کو عدالت میں پیش کرنا ہے اور عدلیہ کا کام ان قوانین کے مطابق سزا کا تعین کرنا ہے لیکن اگر مقننہ ہی عدلیہ بن جائے تو یہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ ایسے میں حکومت جس کے خلاف اورجس طرح کی کارروائی چاہے گی، کرے کوئی اس کو لگام لگانے والا نہیں ہو گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کی روح کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے۔اگر حکومتیں اتنے خوبصورت نظام حکومت میں بھی اپنی طرز حکمرانی سے عوام کا دل نہ جیت سکیں ،مجرمین کو آئین کے مطابق کیفر کردار تک نہ پہنچا سکیں بلکہ وہ ما ورائے عدالت سزاؤں کا تعین کرنے لگیں تو یہ جمہوریت کے لیے نیک فال نہیں ہے بلکہ ایسے عمل کو حکمرانوں کی ناکامی تصور کیا جائے گا۔پاسبان جمہوریت کو ایسے مواقع پر خاموشی سے بیٹھنے کے بجائے احتسابی عمل میں عملی حصہ لینا چاہیے کیونکہ اس طرح کی کارروائیاں حکومتوں کو بے مہار بنا دیتی ہیں پھر جمہوری حکومت اور تانا شاہی حکومت میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ جمہوری نظام حکومت میں پولیس ہو یا فوج اس کا ہر عمل پیشہ ورانہ ہوناچاہیے اور حکومت کو آئین کے خلاف کسی بھی صورت میں قدم نہیں اٹھانا چاہیے، غصہ اور ناراضگی میں کی گئی کارروائی سے عوام کا اعتماد پولیس اور سرکار دونوں سے اٹھ جاتا ہے جبکہ جمہوری نظام حکومت میں اصل اعتماد کی بحالی ہی ہے۔حکومت اور پولیس دونوں کو بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے اپنی زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں اصلاح کرنا چاہیے تاکہ پھر کہیں اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں جو نظم و نسق کے لیے مسئلہ بننے کے ساتھ حکومت اور انتظامیہ دونوں کی شرمساری کا سبب بھی بنیں۔
[email protected]