نے علم سیاسیات کو ’ ماسٹر سائنس‘ کا نام دیا ہے تو بلاوجہ نہیں دیا ہے۔سیاسیات معاشرتی علوم کی وہ شاخ ہے جس نے ملکوں کی تعمیر و ترقی اور ایک صحت مند معاشرہ کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔یہ علم انسان کوسماجی حیوان کے دائرہ سے نکال کر اس کے اندر پرامن بقائے باہمی جیسارویہ پیدا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے اور اختلافات کے باوجود تحمل، برداشت اور وسیع ترانسانی مفاد میں انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔یہ علم بچوں میں فکری نشوونما پیدا کرتا ہے ان کے شعور و آگہی کو جلابخشتے ہوئے ان کے اندر مثبت انداز فکر اوررواداری پیدا کرتا ہے۔لیکن رجعت پسندی ‘ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش اوراقتدارپر اجارہ داری کی خواہش کے ساتھ ساتھ ملک پراپنا مخصو ص نظریہ تھوپنے کی سازش نے ہندوستانی طلبا کو اس علم فیض رساں سے محروم کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ پہلے مرحلہ میں علم سیاسیات سے وہ باب حذف کردیئے گئے ہیں جو انسانوں میں ایک دوسرے کے اقدار سے مفاہمت اور قوم دوستی کے اسباق پر مبنی ہیں۔ کورونا وائرس کے بڑھتے اثرات کو وجہ قراردیتے ہوئے ’فروغ انسانی وسائل‘ کی وزارت نے انسانی وسائل کو ’ مسدود‘ کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ اس وزارت کے بزرجمہروں کی سفارش پر سی بی ایس ای نے اپنے نصاب میں 30 فی صد کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے جو اگلے تعلیمی سال تک جاری رہے گی۔نئے اعلان کے مطابق گیارہویں اور بارہویں جماعت کے علم سیاسیات کے نصاب سے وفاقیت (فیڈرل ازم)، شہریت، قوم پرستی اور سیکولرازم کے اسباق کے ساتھ ساتھ ’مقامی حکومت‘ جیسے اہم موضوعات کو یک قلم مسترد کردیاگیا ہے۔ہندوستان کے دیگر ممالک سے رشتوں پر موجودہ ابواب سے پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور میانمار کو ہٹا دیا گیا ہے۔ دسویں جماعت کے نصاب سے جمہوریت اور تنوع، ذات، مذہب، صنف اورجمہوریت کو درپیش چیلنجزجیسے اہم ابواب بھی ختم کردیے گئے ہیں۔نویں جماعت کی سیاسیات کے نصاب سے جمہوری حقوق اورہندوستانی آئین سے متعلق باب، معاشیات کے نصاب سے ہندوستان میں ’غذائی تحفظ‘جیسا اہم ترین باب بھی کٹوتی کی نذر چڑھادیاگیا ہے۔
کورو نا وائرس سے لڑنے کے نام پر درحقیقت حکومت نے ’ایک پنتھ دو کاج‘ کا فارمولہ اپنا یا ہے۔ کہا یہ جارہاہے کہ کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے ملک بھر کے اسکول گزشتہ چار ماہ سے بند ہیں۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے طلبا کی پڑھائی کا بڑا نقصان ہورہاہے۔اس لئے طلبا کے دبائو کو کم کرنے کیلئے نصاب میں 30فی صد کی کٹوتی کی گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ وہ نصاب سے ایسے تمام اسباق ختم کردیں جو طلبا میں سیکولرازم، و فاقیت، قوم پرستی، انسان دوستی، مذہبی یگانگت، گنگاجمنی تہذیب کا شعورپیداکرتے ہیں۔یہ تمام وہ اسباق ہیں جن کا محور ریاست، حکومت، طرزحکمرانی اور عوامی معاملات کے گرد گھومتا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے نظریات اس سے لگا نہیں کھاتے ہیں۔اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے کئی بار چوردرواز وں کا بھی استعمال کیا گیا۔ کبھی ’بھارت بودھ‘ جیسے دیومالائی اسباق متعارف کرائے گئے تو کبھی ’ گرو کل ‘اور ’ویدک ‘ نظام تعلیم کا ڈول ڈالا گیا،کبھی من گھڑت کہانیاں تاریخ کے نصاب میں شامل کی گئیں، تاریخی شخصیتوں، واقعات اور علامات کو اپنے حساب سے منتخب کیاگیا۔ شکشا سنسکرتی اتھان نیاس‘ بھارتیہ شکشن منڈل ‘ودیا بھارتی‘ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، راشٹریہ شکشک مہاسنگھ، بھارتیہ شکشن منڈل، سنسکرت بھارتی، شکشا بچاؤ آندولن، وگیان بھارتی اور اتہاس سنکلن یوجنا جیسے اداروں نے موجودہ نصاب تعلیم کو ہندوستانی اقدار کے منافی بتاتے ہوئے ’ گروکل‘ تعلیم کو مین اسٹریم میں لانے کی جنگی کوشش بھی شروع کررکھی ہے۔ ہندوستانی نصاب تعلیم کوایک مخصوص نظریہ میں ڈھالنے کی اس کوشش کو کئی بار منہ کی بھی کھانی پڑی۔ سیکولر اور ملک دوست دانش وروں اور مورخین نے اس کی سخت مخالفت کی اور ہر باراس کوشش کی راہ میں کچھ نہ کچھ مشکلات آڑے آتی رہیں۔ اس بار دوسراراستہ اپنایاگیا ہے تاریخ کی بجائے علم سیاسیات کو مشق ستم بنانے کا آغازہوا ہے۔ ہرچند کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ نصاب میں اس کٹوتی کا اطلاق تعلیمی سال 2020-21 تک ہی ہوگا لیکن یہ طے ہے کہ ایک بار اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو اسے ختم نہیں کیاجاسکتا ہے۔
مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل رمیش پوکھریال نشنک نے آج ایک جلسہ میں اس کااقرار بھی کیا ہے کہ ان کی وزارت نے کورونا کے سبب پیدا شدہ چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کیا ہے۔’کووڈ کے خطرے کو تعلیم کے ایک نئے ماڈل کے طور پر بدلنا‘کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کورونا کے سبب سامنے آئے چیلنجزکو فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے مواقع میں تبدیل کیاہے اورطلبا کی صحت کے مدنظریہ فیصلہ کیاگیا ہے۔ہو سکتا ہے کہ وزیرموصوف کی نظر میں یہ بہتری کا عمل ہواورطلبا کی جسمانی صحت انہیں عزیزہو لیکن اگر یہ اقدام طوالت اختیار کرگیا تو اس کے بعد سے ہندوستانیوں کی جو نئی پود وجود میں آئے گی وہ ان علوم سے ناواقف اور بے بہرہ ہوگی۔ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اپنے حقوق اور فرائض سے ناآشنا ہوں گے۔ان کی یہ ناواقفیت اور ان علوم کی کمی خطرناک نتائج پیداکرسکتی ہے۔ملک کے معاشرتی اور سماجی تانے بانے میں بگاڑ ہوگا۔اگر ہم ایک پرامن، طاقتور اور مستحکم ہندوستان کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو وہ اسباق بھی پڑھانے ہوں گے جن سے ان کے اندر مساوات، آزادی، رواداری پیدا ہو اور ان کے شعور اور آگہی،انداز فکر اور ایقانات کو جلا ملے۔
[email protected]
انسانی وسائل کو مسدود کرنے کاآغاز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS