پون دُگل
چینی ایپ پر پابندی سے ہندوستان کے ایپ ورلڈ میں پیدا ہوئے صفر کے بعد ہندوستانی صارفین کے لیے نئے اور انوویٹو ایپ ڈیولپ کرنے کی خاطر حکومت نے ’آتم نربھر بھارت ایپ انوویشن چیلنج‘ لانچ کیا ہے۔ یہ ہندوستانی ایپ ڈیولپروں کو ہندوستانی بازار پر مرکوز ایپ ڈیولپ کرنے کے لیے حکوت کی طرف سے اٹھایا گیا پہلا قدم ہے۔ چینی ایپس پر پابندی کا حکم اس لیے جاری کرناپڑا، کیوں کہ ان ایپس سے ہندوستان کی خودمختاری، تحفظ اور سالمیت پر منفی اثر پڑتا تھا۔اس پابندی کے بعد گھریلو اور بین الاقوامی سطح پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ آزاد ہندوستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ایک ملک کے اتنے سارے ایپس پر حکومت ہند نے پابندی لگائی ہے۔ حکومت کو یہ طاقت انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ، 2000کی دفعہ69اے کی بدولت ملی ہے۔
اگر کوئی اس طاقت کے دائرے اور خواہش کو دیکھے گا تو اسے پتا چل جائے گا کہ کسی بھی معلومات کو روکنے کی اس طاقت کا استعمال ٹھوس بنیادوں پر کیا جاسکتا ہے۔ انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ،2000کے تحت درج بنیادوں میں ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت، ہندوستان کی سیکورٹی، ریاستوں کا تحفظ، غیرممالک کیساتھ تعلقات یا عوامی نظام یا کسی ازخود نوٹس میں لینے لائق جرائم کو روکنا شامل ہے۔ یہ ایک تفصیلی طریق کار ہے، جسے انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی(عام لوگوں کی معلومات تک پہنچ کو روکنے کے لیے عمل اور حفاظتی اقدامات) ایکٹ، 2009کے تحت بنائے گئے ضوابط کے تحت مقرر کیا گیا ہے۔
موجودہ پابندی مختلف قانونی نظریات پیش کرتی ہے۔ پبلک سیکٹر میں بے مثال پابندی کے احکام کے جاری ہونے کو دیکھتے ہوئے ملحق قانونی چیلنجز کی چرچہ ہورہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آج معلومات کو روکنا متعلقہ اور بروقت اقدامات ہیں۔ 20ویں صدی میں ایسی پابندیاں بااثر ثابت ہوتی تھیں۔ جب کہ موجودہ 21ویں صدی میں انٹرنیٹ اور اس کے آفاقی رابطہ (Universal connectivity) کے ساتھ اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک(وی پی این) کی آمد کے پیش نظر آج لگائی جانے والی پابندیوں کو حکومتوں کے لیے ایک گمراہ کن متبادل ہی سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ پابندی نے نہ صرف ہندوستانی سائبر لاء کو جانچ کے دائرہ میں رکھ دیا ہے، بلکہ ہندوستان کے ڈاٹا سیکورٹی اور رازداری پر مبنی قانون بنانے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ یہ قابل قبول حقیقت ہے کہ ہندوستان کے پاس سائبر سیکورٹی پر کوئی ڈیڈیکیٹڈ قانون نہیں ہے۔ یہ عجیب ہے کیوں کہ دنیا بھر کے کئی ممالک کے پاس اپنے خصوصی قومی سائبر قانونی ڈھانچے ہیں۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے سپریم کورٹ کے ذریعہ ’جسٹس پٹّا سوامی بنام بھارت سنگھ‘ کے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 21کے تحت رازداری کے حق کو بنیادی حق کے طور پر منظوری دینے کے باوجود ہندوستان میں اب بھی رازدی پر کوئی ڈیڈیکیٹڈ قانون نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انڈین ڈاٹا پروٹیکشن لاء پر مجوزہ پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن بل، 2019 ہندوستانی پارلیمنٹ کی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے سامنے غوروخوض کے لیے التوا میں ہے۔ مذکورہ پابندی نے ایک بڑے ایشو کو جنم دیا ہے کہ ہندوستان کو ان اہم تکنیکی-قانونی ایشوز پر ایک جامع نظریہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
چوں کہ سائبر سیکورٹی یا ڈاٹا رازدای پر اسپیسیفک ڈیڈیکیٹڈلاء کی کمی ہے، اس لیے ہندوستان کے پاس اپنے اصل سائبر قانون-انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ ، 2000پر بھروسہ رکھنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ ڈیڈیکیٹڈ ڈاٹا پرائیویسی اور سیکورٹی لاء کی کمی ہندوستان کے قانونی نظریات میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور موجودہ وقت میں ہندوستان کے مختلف متبادل کو محدود کرتی ہے۔
اس تناظر میں ہندوستان کو جلدی اور انتہائی سرگرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کو سنگاپور، آسٹریلیا، ویت نام جیسے ممالک کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے پہلے ہی سائبر سیکورٹی اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ڈیڈیکیٹڈ نئے سائبر قانونی ڈھانچے کی تشکیل کی ہے۔ حالاں کہ جیسا کہ ہندوستان اپنے سائبر سیکورٹی قانونی ڈھانچہ کو تیار کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم صرف دوسرے ممالک کے قانونی مواد(Legal material) کو جوں کا توں نہ اٹھائے، بلکہ اس سے متعلق مختلف ممالک کے سبق کو اپنائیں اور ان عالمی اسباق کو ہندوستانی تناظر میں نافذ کریں اور انہیں زیادہ سے زیادہ اپنے مطابق بنائیں۔
یہ حقیقت بھی ہندوستان کے علم میں ہے کہ نیو ٹیکنالوجیز نہ صرف عروج پر اُبھر رہی ہیں، بلکہ قومی ترقی میں مرکزی کردار نبھا رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی تیزی سے توسیع ہورہی ہے، جس سے مخصوص قانونی اور پالیسی چیلنجز و ایشو سامنے آنے لگے ہیں، جنہیں ہندوستان جیسے ممالک کے ذریعہ مناسب طور پر مخاطب کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بلاک چین کی آمد اور ہندوستان میں بٹ کوائن کے بڑھتے استعمال نے پھر سے ہندوستان کو کرپٹوکرنسی کوکنٹرول کرنے کے لیے مؤثر قانونی ڈھانچہ بنانے کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگس ڈیوائسز کا استعمال کرنے والے ہندوستانیوں کی بڑی تعداد کے ساتھ، انٹرنیٹ آف تھنگس ایکو سسٹم میں سائبر سیکورٹی کی خلاف ورزیوں کے سبب بھی ہندوستان کو اپنے مخصوص قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان سے مناسب ڈھنگ سے بہت جلدی نمٹنا ہوگا۔
سال 2020کی نئی بدلتی زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے اور ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستان نے جو بڑے پیمانہ پر سیکھا ہے، اسے دیکھتے ہوئے پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ، 2019 میں ترمیم کرنے اور اس کی معلومات دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آج کے تناظر میں اسے متعلقہ اور بروقت بنانے کے لیے انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ، 2000کا تجزیہ کرنے اور بڑے پیمانہ پر ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہندوستان میں 59چینی ایپس پر پابندی عائد کرنے کے الگ الگ قانونی ایشوز اور چیلنجز کے بڑھنے کا امکان ہے۔ آنے والے وقت میں ایک خودمختار ملک کے طور پر ہندوستان کو ان سب پر توجہ مرکوز کرنی ہے اور ہندوستانی قوم اور ڈیجیٹل و موبائل ایکوسسٹم میں اپنی خودمختاری کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
(بشکریہ: امراُجالا)
(مضمون نگار سائبر ایکسپرٹ اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں)