جگل موہاپاترا/سراج حسین
(مترجم: محمد صغیر حسین)
ہندوستان میں ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے میں ’’وَن مہوتسو‘‘ یعنی ’’پیڑوں کا تہوار‘‘ منایا جاتا ہے۔ نوجوان افراد شاید اس حقیقت سے ناآشنا ہوں کہ اس سالانہ تہوار کی شروعات کے ایم منشی نے کی تھی جو 1950میں وزیربرائے خوراک و زراعت تھے۔ اس کا مقصد ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں شجرکاری اور تحفظ جنگلات کی اہمیت و افادیت سے لوگوں میں وسیع پیمانے پر بیداری لانی تھی۔ اس کے علاوہ غذائی اجناس، چارہ اور ایندھن کی پیداوار میں اضافہ بھی مقصود تھا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ مختلف حکومتوں کے دوران یہ رسم جاری رہی اور اپنے آغاز سے آج تک لگاتار جاری ہے۔ حالیہ ایام میں، ریاستوں اضلاع کے مابین، وَن مہوتسو ہفتے کے دوران زیادہ سے زیادہ پودے لگانے اور سابقہ ریکارڈ توڑنے کی ہوڑ سی لگ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 2019کے مانسون کے دوران، ہندوستان کے ہر شہری کے نام پر ایک پودا لگایا گیا تاکہ ’’مادرِگیتی‘‘ کوبچایا جاسکے۔
اکیسویں صدی میں نسل انسانی کے سامنے جو سب سے زیادہ خوفناک اور ہولناک عالمی چیلنج ہے، وہ دراصل موسمیاتی تبدیلی کا ہے۔ اس تبدیلی کو صرف جنگلاتی رقبے میں اضافے کے ذریعہ ہی روکا جاسکتا ہے۔ شجرکاری کی فوری ضرورت اسی مقصد سے وابستہ ہے۔
عالمی سطح پر ورلڈ اکنامک فورم نے جنوری 2020میں ایک ٹریلین پیڑ لگانے کے ’’One Trillion Trees Initiative‘‘ پروگرام کی ابتدا کی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ’’Bonn Challenge‘‘ پروگرام کا ہدف 2030تک دنیا کے زوال آشنا جنگلات کے 350ملین ہیکٹیر(mha) رقبے کو پھر سے جنگل بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نیشنل ایکشن پلان آن کلائمیٹ چینج (National Action Plan on Climate Change/ NAPCC,2008) (جو2009میں موسمیات پر ہونے والی کوپن ہیگن چوٹی کانفرنس سے قبل شائع ہوگیا تھا) میں قومی مشن برائے سبز ہندوستان شامل تھا۔ یہ مشن اُن آٹھ مرکزی مشنوں میں سے ایک تھا، جنہوں نے تخفیف کے اہم اہداف کے حصول کے لیے کثیرجہتی، طویل مدتی اور جامع حکمت عملی پیش کی۔ مذکورہ بالا مشن نے اصولی طور پر ملک کے جنگلات کے رقبے میں 33فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اگرچہ اس مشن کی ابتداء 2011میں طے تھی لیکن اس میں تین سالوں کی تاخیر ہوگئی۔ آخرکار اس کی شروعات 2014میں ’’گرین انڈیا مشن(GIM) ‘‘ کے نام سے 46,000کروڑ روپے کے ایک منظورشدہ بجٹ سے ہوئی۔ اس مشن کے اہداف حسب ذیل ہیں:
(الف) جنگلات کے رقبے میں پانچ ملین ہیکٹیئر کا اضافہ کرنا، اور
(ب) جنگلاتی یا غیرجنگلاتی اراضی پر پانچ ملین ہیکٹیئر کے اضافی جنگل کی کوالٹی بہتر کرنا۔
اس ضمن میں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ Nationally Determined Contributions/NDC کی شکل میں 2015میں Conference of Parties(Cop 21) میں کیے گئے وعدوں کے مطابق ہندوستان نے 2020-2030 کے دوران 2.523 بلین ٹن کاربن کوٹھکانے لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مزید 30ملین ہیکٹیئر جنگلات کی ضرورت ہوگی یعنی جی آئی ایم(GIM) نے جتنے رقبے پر جنگل بنانے کا عزم و ارادہ کیا ہے، اس سے تین گنا زیادہ۔
پارلیمنٹ کی تخمینہ کمیٹی نے 2018-19میں جی آئی ایم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جو اس کی تیسویں رپورٹ(16ویں لوک سبھا) میں مذکور ہے۔ یہ معلوم ہوا کہ 2015-16سے لے کر 2017-18کے دوران مشن نے صرف96.16کروڑ روپے ہی خرچ کیے جو کل رقم مختص کا محض27فیصد تھا۔ عملی لحاظ سے دیکھیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جی آئی ایم 67,651.4 ہیکٹیئر کے مقررہ ہدف میں سے صرف 43,383.8ہیکٹیئر(64%) پر ہی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اس رفتار سے جنگلات میں اضافے کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ بڑے فرق کے ساتھ حاصل نہ ہوسکے گا۔ شاید یہی احساس تھا جس کے زیراثر حکومت ہند نے جی آئی ایم کو دیے جانے والے مالی تعاون میں اضافہ تو کیا لیکن اسے مارچ 2015میں MGNREGA اور مئی 2015 میں (Compensatory Afforestation Fund Act) CAMPA کے ساتھ مدغم کردیا۔
رپورٹوں کے مطابق، MGNREGAکے تحت 2015-16 سے لے کر 2019-20 تک 14,440 کروڑ روپے شجرکاری پر صرف ہوئے۔ یہ رقم پروگرام کے مجموعی اخراجات کا محض پانچ فیصد ہے(پروگرام کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے لحاظ سے)۔ تاہم شجرکاری کے رقبے اور پیڑوں کے گھنے پن کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکتا۔ اسی طرح CAMPA فنڈز سے اب تک 47,436.18 کروڑ روپے کی رقم ریاستوں کو دی جاچکی ہے اور 1.15 ملین ہیکیٹئر پر شجرکاری ہوچکی ہے۔
اگرچہ وزارت برائے ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی نے شجرکاری کے جائزے کے لیے ای گرین واچ (e-Green Watch) نامی ایک جامع پورٹل شروع کیا ہے لیکن CAMPAفنڈز کے ذریعہ ہونے والی حقیقی پیش رفت کا اندازہ بہ اعتبار، ریاست بہت مشکل ہے۔ کئی بڑی ریاستوں نے پورٹل پر یہ تفصیلات نہ جانے کیوں نہیں دی ہیں۔ مزید یہ کہ جی آئی ایم کی واضح ہدایت کے باوجود کہ شجرکاری کی سیٹیلائٹ کے ذریعہ نگرانی کی جائے گی، عوامی طور پر ایسی کوئی جامع رپورٹ دستیاب نہیں ہے جس سے بنائے گئے جنگلات کی کوالٹی، حدودواور ان کی شرح بقا کا اندازہ کیا جاسکتا۔
شجرکاری اور جنگل سازی پر خطیررقمیں صرف کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ NDC سے کیے گئے عہد کو پورا کرنے کی غرض سے جنگلات کے رقبے کو بڑھانے، اُن کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ ان تناظرات میں شہریوں کے تعلق سے کئی سوالات اُبھرتے ہیں:
پہلا یہ کہ شجرکاری اور جنگل سازی کے بعد کے ماہ و سال میں اُن کی شرح بقا کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے پیش نظر کس قدر نگہداشت کی گئی؟
دوسری یہ کہ کیا جنگلات کے باہر شجرکاری/جنگل سازی کے ذریعہ بنائے گئے جنگلات کاربن کی تخفیف کے لحاظ سے اُن قدرتی جنگلات کے مکمل یا معقول متبادل ہوں گے جو آگ، دیگر حیاتی غارت گری اور غیرجنگلاتی استعمالات (کان کنی، صنعتی اور آب پاشی/ پاور پروجیکٹس) کے لیے جنگلات کی تبدیلی کے سبب تباہ ہوگئے؟
تیسرے یہ کہ نئی شجرکاری جو زیادہ تر تیزی سے بڑھنے والے یک فصلی درختوں پر مبنی ہے۔ اس کے مقابل کئی انواع کے درختوں کی شجرکاری ہوتی ہے جو حیاتیاتی تنوع کو زرخیز بناتے ہیں۔ ان دونوں میں سے کسے ترجیح دی جارہی ہے؟
چوتھے یہ کہ کیا شجرکاری کے منصوبے کو تیزی سے نافذ کرنے اور اُن کی کوالٹی کی بروقت نگرانی کے لیے مروجہ تفتیشات کو مزید پراثر بنانے کے مدنظر جنگلات کے اہلکاروں، نئی تکنیکوں مثلاً سیٹیلائٹ سے تصویر کشی، ڈرونز اور دیگر خودکار طریقوں کا استعمال کررہے ہیں؟
آئیے سب سے پہلے شرحِ بقا کے مسئلے پر غور کرتے ہیں۔ شومئی قسمت سے ہم سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ ہونے والی شجرکاری کے تعلق سے جلد ہی سوکھ کر فنا ہوجانے والے درختوں کی افسانوی کہانیاں اکثر وبیشتر سنتے رہتے ہیں اور ٹھوس حقیقتوں پر مبنی سچائیاں برائے نام سامنے آتی ہیں۔ جنگل سازی کی سرکاری اسکیموں میں شرحِ بقا کے بارے میں عوامی حلقوں میں جو واحد سرکاری رپورٹ دستیاب ہے وہ آئی سی ایف آر ای(ICFRE) (Indian Council of Forestry Research & Education) کی تیارکردہ وسط مدتی جائزاتی رپورٹ (Mid-term Evaluation Report) ہے جو 2008 میں قومی جنگل سازی پروگرام کے جائزے پر مبنی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اگرچہ یہ ایک دہائی پرانی ہے، درختوں کی شرح بقا مختلف ہوتی ہے۔ جہاں شمال مشرقی اور ہمالیائی خطوں کے پار کے سازگار جغرافیائی علاقوں میں یہ شرح 82% ہے وہیں صحرا اور نیم بنجر علاقوں کے سخت زمینی حالات کے سبب یہ شرح گھٹ کر 68-71فیصد رہ جاتی ہے۔ مزید یہ کہ شرح بقا کا تعلق درختوں کے سن و سال پر بھی موقوف ہوتا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سال گزرنے کے ساتھ شرح اموات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جہاں پہلے سال میں یہ شرح 20% ہوتی ہے وہیں پانچویں سال میں 40%ہوجاتی ہے۔ ایسا Assisted Regeneration(AR)،Assisted Natural Regeneration(ANR) اور مخلوط شجرکاری تینوں میں ہی ہوتا ہے۔ اگر حالیہ سالوں میں یہی شرح بقا ہنوز برقرار ہے تو ہم فکرمند شہریوں کے لیے یہ ایک مژدئہ جانفزا ہے۔
دوسرا اور تیسرا سوال، موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں مزید اہمیت کا حامل ہے۔ Nature Sustainability میں شائع ہونے والا ایک حالیہ مطالعہ اس سلسلے میں ایک سنجیدہ تشویش کی جانب ہماری توجہ دلاتا ہے۔ چلی کی شجرکاری پروگرام پر مبنی مطالعہ ایک معتبر تجرباتی شہادت پیش کرتا ہے جس کی رو سے یک نوعی یا محدود انواع کی شجرکاریاں کاربن کو جذب کرنے کی کم صلاحیت رکھتی ہیں بالخصوص ایسے میں کہ جب شجرکاری کا مقصد قدرتی جنگلات کی بھرپائی کرنا ہو۔ پالیسی مضمرات واضح ہیں۔ ہم کو صفاچٹ جنگلوں یا غیرجنگلاتی علاقوں میں یک نوعی شجرکاری سے اجتناب کرنا چاہیے اور تباہ شدہ قدرتی جنگلاتی علاقوں میں ازسرنو نمو اور مزید گھنی شجرکاری پر توجہ دینی چاہیے۔
آخری بات یہ ہے کہ جہاں تک نئی ٹیکنالوجیوں کے مناسب استعمال کا تعلق ہے تو ہم کو پہلے سے ہی احساس ہے کہ MoEF نے ابھی تک مسلسل نگرانی کے لیے ہائی فریکوینسی سیٹیلائٹ تصویروں کا استعمال شروع نہیں کیا ہے۔ مزید برآں، موافق اراضی کے انتخاب، ہوائی بوائی اور بڑے پیمانہ پر کی گئی شجرکاری کی پہلے اور بعد میں نگرانی کے لیے ڈرونز کے استعمال کے امکانات پر ہندوستان سمیت پوری دنیا میں منصوبے بنائے گئے ہیں۔
ایف اے او(FAO) کے ایک تخمینے کے مطابق ایک ڈرون ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ درخت لگانے میں مدد کرسکتا ہے اور 60ڈرونز ایک سال میں ایک بلین درخت لگاسکتے ہیں۔ اپنی ٹیکنالوجیوں کو بروئے کار لاکر مقررہ وقت سے کہیں پہلے گرین انڈیا کے ہدف کو حاصل کرسکتے ہیں اور اپنی مادرگیتی کو پھر سے ہرابھرا اور سرسبزو شاداب بناسکتے ہیں۔ آئیے سالِ رواں کے وَن مہوتسو کے موقع پر یہی عہد کریں۔
عوام کوشجرکاری اور جنگل سازی کی اہمیت اور افادیت سے باخبر رکھنے کے لیے اور موجودہ جنگلوں کے تحفظ کے لیے حکومت کو چاہیے کہ GIM کی پیش رفت پر گاہے گاہے رپورٹ شائع کرتی رہے۔(بشکریہ: دی وائر)
(جگل موہاپاترا وزارت برائے دیہی ترقیات میں سکریٹری کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ سراج حسین یونین سکریٹری برائے زراعت تھے اور سردست ICRIER میں وزیٹنگ سینئرفیلو ہیں)