سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
بھارت سرکار نے آج ایک اچانک اور غیر متوقع فیصلے میں سینئر اور وادیٔ کشمیر میں واحد ہر دلعزیز آئی پی ایس افسر بسنت رتھ کو معطل کرنے کے احکامات صادر کر دئے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ رتھ کو جموں ہیڈکوارٹر میں موجود رہنے اور ڈائریکٹر جنرل آف پولس (ڈی جی پی) کی پیشگی اجازت کے بغیر ہیڈکوارٹر نہ چھوڑنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
انٹرنیٹ پر وائرل مرکزی وزارتِ داخلہ کے ایک حکمنامہ کے مطابق سال 2000کے جموں کشمیر کیڈر کے آئی پی ایس افسر بسنت رتھ کو ’’بار بار کے غلط برتاؤ اور بدتمیزی کیلئے‘‘ فوری طور معطل کردیا گیا ہے۔حکمنامہ میں درج ہے ’’یہ مزید حکم دیا جاتا ہے کہ جب تک یہ حکم نافذ رہے گا شری بسنت رتھ کا صدر مقام جموں،یونین ٹریٹری آف جموں کشمیر،رہے گا اور مذکورہ شری بسنت رتھ ڈی جی پی جموں کشمیر کی اجازت کے بغیر صدر مقام نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
ایک سینئر آئی پی ایس افسر کے خلاف اپنی نوعیت کی یہ کارروائی خود رتھ کی جانب سے جموں کشمیر کے ڈی جی پی کے خلاف پولس میں شکایت درج کرانے کے دو ایک ہفتوں کے بعد ہی روبہ عمل لائی گئی ہے۔24جون کو بسنت رتھ نے جموں کے گاندھی نگر پولس تھانہ میں خود ڈی جی پی جموں کشمیر کے خلاف ایک تحریری شکایت درج کرائی تھی جس میں انہوں نے ڈی جی پی پر انہیں دھمکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کوئی نقصان پہنچا تو ڈی جی پی (دلباغ سنگھ) کو ملزم ٹھہرایا جانا چاہیئے۔ایس ایچ او کے نام شکایت میں رتھ نے کہا تھا کہ انکی شکایت کسی آئی پی ایس افسر کے بطور نہیں بلکہ ایک عام شہری کے بطور لی جانی چاہیئے اور یہ کہ اگرچہ وہ کوئی باضابطہ ایف آئی آر درج تو نہیں کرانا چاہتے ہیں تاہم اسے پولس ڈائری کا ریکارڈ بنایا جانا چاہیئے تاکہ انکی کوئی گزند پہنچی تو ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آپکو کس کا نمبر ڈائل کرنا ہے‘‘۔
آج معطل کئے جانے سے قبل تک بسنت رتھ جموں کشمیر میں ہوم گارڈز کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) تعینات تھے۔
”الگ طرح‘‘سے ڈیوٹی کرنے کیلئے مشہور اور سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے آئی جی پی بسنت رتھ 2018 میں تب مشہور ہوگئے کہ جب جموں کشمیر کی اُسوقت کی سرکار نے مرکزی سرکار کی مرضی و منشاٗ کے بر خلاف اُنہیں ترقی دیکر جموں کشمیر میں ٹریفک پولس کا چیف بنادیا تھا۔اس تعیناتی کے ساتھ ہی وہ
نجی محفلوں سے لیکر سیاسی گلیاروں تک میں موضوع بحث ہیں۔ چناچہ رتھ ایک عام پولس والے کی طرح جموں وکشمیر کی مختلف سڑکوں پر کہیں خود ٹریفک کو سنبھالتے دیکھے جاتے تو کہیں انہیں سڑکوں پر چھاپڑی فروشوں اور دکانداروں کے ناجائز قبضے کو ہٹاتے دیکھا جاسکتا تھا۔ انکو لیکر گذشتہ تب ایک گرما گرم بحث شروع ہوئی تھی کہ جب انہوں نے ایک آئی پی ایس افسر کے بیٹے اور دوسرے افسر کے فوجی کیپٹن داماد کی آڈی گاڑی ضبط کردی تھی۔ انہوں نے جموں کے ایک مکان مالک کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کروائی ہے کہ جنہوں نے انکے گھر ہوئی کسی تقریب کیلئے بیچ راستے میں خیمہ نصب کردیا تھا۔ اتنا ہی نہیں ایک ٹویٹ میں بسنت رتھ نے اپنے ماتحت پولس اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اپنا تبادلہ کروانا ہوتو اس میں کسی سیاستدان کو نہ لائیں بلکہ انہیں اپنے کوائف وٹس اپ کریں اور انکا کام ہوجائے گا۔ اپنا ذاتی فون نمبر عام کرکے بسنت رتھ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کہیں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوتے دیکھیں اور با الخصوص کود پولس والوں کو مرتکب پائیں تو ویڈیو یا تصویر بناکر انہیں وٹس اپ کریں، وہ معاملے کو دیکھ لیں گے۔ اس طرح کی سرگرمیوں نے انکے لئے چند دشمن کھڑا کردئے تھے تاہم کشمیری عوام کی اکثریت انہیں ’’ہم میں سے ایک‘‘کی طرح دیکھتے ہوئے انسے پیار کرنے لگی تھی یہاں تک کہ بھاجپا کے پروردہ سرینگر میونسپلٹی کے سابق مئیر کے ساتھ آن لائن نوک جھونک پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔دلچسپ ہے کہ مقامی مسلمان مئیر کے مقابلے میں لوگوں نے رتھ کی حمائت کی تھی اگرچہ انہیں اسکا کوئی فائدہ نہ ملا۔
بسنت رتھ پہلی بار تنازعوں سے گھرے ہیں نہ خبروں اور نظروں میں ہی نئے ہیں بلکہ انڈین ایکسپریس اور کئی نیوز پورٹلوں پر انکے کئی مضامین نے حکومت ہند کو بھی انسے ناراض کردیا ہے جسکے لئے اس سے قبل بھی نئی دلی نے جموں کشمیر سرکار سے رتھ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے کہا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رتھ کے خلاف انکی ڈی جی پی دلباغ سنگھ کے ساتھ لفظی جنگ فیصلہ کُن ثابت ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ رتھ نے گذشتہ دنوں دلباغ سنگھ پر جموں میں ناجائز طریقے سے زمین خریدنے کے سنگین الزامات لگائے تھے اور انہیں لیکر ’’غیر مہذب‘‘ٹویٹ کئے تھے۔اندازہ ہے کہ کافی طاقتور سمجھے جارہے ڈی جی پی کے دلی میں دوستوں کو یہ سب برداشت نہیں ہوا تاہم کشمیر میں سوشل میڈیا پر رتھ کے آنسو پونچھنے کیلئے لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں جو ایک بڑی بات ہے کیونکہ عام حالات میں وادی کشمیر میں لوگوں اور پولس کے بیچ کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے پاٹنا ناممکن لگتا ہے۔