سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
اب جبکہ سرکار کی جانب سے رفتہ رفتہ کووِڈ19- سے متعلق پابندیاں ہٹائی جارہی ہیں اور ساتھ ہی درجۂ حرارت بڑھتا جارہا ہے،وادیٔ کشمیر میں لوگوں نے احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کرنا شروع کردیا ہے۔حالانکہ سماجی فاصلے کا بھی بہت زیادہ خیال نہیں رکھا جارہا ہے تاہم ماسک پہننا تقریباََ سبھی لوگوں نے ترک ہی کردیا ہے۔گو سرکار کی طرفسے فیس ماسک کے استعمال کو عوامی مقامات پر لازمی بنایا گیا ہے تاہم لوگوں کا کہنا ہے کہ شدت کی گرمی کے ایام میں منھ بند کئے رکھنے سے انکا دم گھٹتا ہے۔
کووِڈ19- کے حوالے سے ماہرین کی وضع کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل در آمد کی صورتحال جانچنے کیلئے اس نمائندے نے سرینگر شہر سے لیکر پڑوسی ضلع بڈگام تک کے کئی علاقوں کا دورہ کیا۔سبھی جگہ اس بات کا یکساں احساس ہوا کہ بھلے ہی کووِڈ19- کے معاملات تیزی سے بڑھ رہے ہوں تاہم لوگوں نے دنیا بھر میں تباہی مچاتی آرہی اس بیماری کو ہلکے میں لینا شروع کیا ہے۔بڈگام ضلع کے معروف علاقہ چرار کے کئی مضافاتی دیہات میں جاکر یہ دیکھا گیا کہ لوگ نہ صرف یہ کہ ماسک پہنے بغیر گھوم رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہ سماجی فاصلے کی ضرورت محسوس تک نہیں کی جارہی ہے۔ہفرو بٹہ پورہ نامی گاؤں میں ایک شادی والے گھر میں مہمانوں کا ہجوم تھا تاہم دو ایک لوگوں کو چھوڑ کر کسی نے بھی فیس ماسک نہیں پہنا تھا۔مہمانوں نے کھچا کھچ بھرے ایک ہال میں روائتی کشمیری وازہ وان کھایا،گھپیں لڑائیں اور پھر چلے گئے۔یاد رہے کہ کم از کم سات پکوانوں کا مجموعہ کشمیری وازہ وان چار لوگ تانبے کے ایک بڑے پلیٹ،جسے مقامی طور ترامی کہتے ہیں،ایک ساتھ بیٹھ کر ہاتھ سے کھاتے ہیں۔
پوچھنے پر ان میں سے کئی مہمانوں نے کہا کہ وہ کووِڈ19- کی بیماری کے حوالے سے پہلے پہلے ڈر تو گئے تھے لیکن بعدازاں انہیں یوں لگنے لگا کہ جیسے اسکا کوئی وجود ہی نہ ہو بلکہ یہ ایک ’’معمہ‘‘ ہے۔بشیر احمد نامی ایک شخص نے کہا ’’کیا ماسک پہننا اور دوستوں سے ہاتھ ملانے سے پرہیز کرنا،سب اوپر والے کے ہاتھ میں ہے بیمار ہونا ہوگا تو آپ کتنی بھی احتیاط برتیں،آپ بیمار ہو ہی جائیں گے‘‘۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا ’’ویسے بھی یہ (کووِڈ19-) ایک بڑا اسکینڈل معلوم ہوتا ہے‘‘۔قابلِ ذکر ہے کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا نے گذشتہ دنوں ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا تھا کہ وادی میں کس طرح کووِڈ19- کے محض ایک جھوٹ ہونے کی افواہیں پھیلی ہیں یا پھیلائی جارہی ہیں۔
سرینگر کے بازاروں میں اگرچہ پوری طرح معمول کی سرگرمیاں بحال تو نہیں ہوئی ہیں لیکن دھیرے دھیرے لوگوں کا رش بڑھتا جارہا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ کسی دکان میں کوئی گاہک سینیٹائزر مانگتا ہے اور نہ ہی کوئی دکاندار اپنے گاہکوں کے ہاتھ صاف کرنے کیلئے اسے اسکی پیشکش کرتا ہے جیسا کہ سرکاری ہدایات میں شامل تھا۔لالچوک،ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ،لیمبرٹ لین ،بٹہ مالو،کرن نگر اور پائین سرینگر کے مختلف بازاروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا بڑا رش لگا ہوا ہے اور کوئی کسی سے فاصلے پر رہنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتا ہے۔پائین شہر کے بہوری کدل علاقہ میں ایک شخص نے ماسک پہنے ہوئے ایک اور شخص کو طنزیہ انداز میں کہا ’’کیوں اس گرمی میں ماسک پہن کر خود کو عذاب میں رکھے ہوئے ہو،پھینک دو یہ آُپ کو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ کئی لوگوں نے کہا کہ انہیں ماسک پہننے دے بے چینی ہوتی ہے اور انہیں یوں لگتا ہے کہ انکا دم گھٹنے والا ہے۔
شہر کے چھانہ پورہ علاقہ میں ایک مرغ فروش ماسک پہنے بغیر کاروبار کرتے ہیں حالانکہ چند روز قبل تک وہ نہ صرف ماسک پہنے نظر آٹے تھے بلکہ وہ ایک خاص قسم کا دستانہ بھی استعمال کرتے تھے۔ یہ پوچھنے پر کہ انہوں نے احتیاطیں چھوڑ کیوں دی ہیں انہوں نے کہا ’’تب سبھی لوگ ماسک پہنا کرتے تھے اور اگر کوئی نہ پہنتا تو وہ الگ دکھتا تھا لیکن اب سب کچھ اُلٹا ہوگیا ہے کہ جو کوئی ماسک پہنے وہی الگ دکھتا ہے‘‘۔مذکورہ مرغ فروش نے کہا کہ اب کئی دن ہوئے نہ اُنکے گاہک ہی ماسک پہنتے ہیں اور نہ وہ۔ انہوں نے کہا ’’اب تو کوئی مجھے ماسک پہننے کیلئے کہتا بھی نہیں ہے‘‘۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں ماسٹرس کے طالبِ علم گوہر احمد نے بتایا ’’جیسا کہ ایک کشمیری کہاوت میں ہے کہ نئی بات نو دن کیلئے رہتی ہے،یعنی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چیزوں کی اہمیت بھی بدل جاتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جب وادیٔ کشمیر میں کووِڈ19- کا پہلا معاملہ سامنے آیا تھا تو یہاں محشر بہپا ہوگیا تھا لیکن اب جبکہ متاثرین کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اس بیماری کے بہانے مرنے والوں کی تعداد سوا سو کے لگ بھگ ہوگئی ہے تو لوگ دھیان بھی نہیں دیتے ہیں۔
محکمۂ صحت کے ایک افسر نے اس صورتحال سے واقف ہونے کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ لوگ بے پرواہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’لوگوں میں شعور پیدا نہ ہو تو کیا کیجئے گا،حقیقت یہ ہے کہ کووِڈ19- کے معاملات بڑھتے ہی جا رہے ہیں،اگر ہمارے یہاں کی ایمیونٹی مظبوط ہے تو یہ قدرت کی مہربانی ہے لیکن ہمیں ڈر ہے کہ لاپرواہی کہیں ہمیں بہت بھاری نہ پڑھے‘‘۔