شمالی کشمیر میں فورسز پر حملہ،فورسز اہلکار ہلاک اور عام شہری بھی پُراسرار طور جاں بحق

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    جنوبی کشمیر کے بجبہاڑہ قصبہ میں گذشتہ ہفتے جنگجوؤں اور سرکاری فورسز کے بیچ ہوئے فائرنگ کے ایک تبادلہ میں 5 سالہ بچے کے مارے جانے پر اسکے باپ کو اکیلے گھر جانا پڑاتھا اور آج ایسے ہی ایک واقعہ میں اسی عمر کا ایک بچہ اکیلے گھر پہنچ گیا ہے۔ یہ بد نصیب بچہ اپنے نانا کے ساتھ نکلا ہوا تھا جو فائرنگ کے ایک پُراسرار واقعہ میں مارے گئے ہیں۔اس واقعہ میں سی آر پی ایف کے ایک اہلکار بھی ہلاک ہوگئے ہیں اور فورسز کا کہنا ہے کہ معصوم بچے کے نانا حملہ آور جنگجوؤں کی گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے ہیں تاہم سوگوار خاندان نے فورسز پر مذکورہ کو اپنی گاڑی سے اتار کر گولی ماردینے کا الزام لگایا ہے۔
    شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں علی الصبح پیش آمدہ اس واقعہ سے متعلق خون کے آنسو رلادینے والی تصاویر انٹرنیٹ پر وائرل ہیں تاہم یہ بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ یہ تصاویر کس نے کھینچی ہیں اور کس نے انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔
    یہ خبر صبح تڑکے انٹرنیٹ کے ذرئعہ جنگل کی آگ ہوگئی کہ شمالی کشمیر کے سوپور کے ماڈل ٹاون علاقہ میں جنگجوؤں نے سرکاری فورسز پر فائنرگ کی ہے اور اس واقعہ میں ایک فورسز اہلکار کے علاوہ ایک عام شہری بھی مارے گئے ہیں جبکہ دیگر تین اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ابھی یہ خبر آہی رہی تھی کہ ادھیڑ عمر کے ایک شخص کی لاش ،جسکے سینے پر ایک چھوٹا بچہ بیٹھا تھا،کی تصویر بھی وائرل ہوگئی اور بتایا گیا کہ بشیر احمد نامی یہ شخص ’’کراس فائرنگ‘‘میں مارے گئے ہیں۔خون میں لت پت اپنے نانا کی لاش کے سینے پر بیٹھے معصوم کی تصویر خون رلا دینے والی تھی اور اس پر بجا طور واویلا مچ گیا اور لوگ اسکی شدید مذمت کرنے لگے۔البتہ اسکے ساتھ ہی لوگ یہ سوال اٹھانے لگے کہ اگر یہ حملہ اسوقت ہوا کہ جب آس پاس بہت زیادہ لوگ نہیں تھے تو پھر لاش کے سینے پر بیٹھے بچے کی تصویر کس نے کھینچی اور اسے وائرل کس نے کیا۔حالانکہ سرکاری فورسز کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے معصوم بچے کی جان بچائی لیکن بشیر احمد خان کے لواحقین نے یہ سنسنی خیز انکشاف کرکے پورے معاملے کو ہی نیا موڈ دیدیا کہ مذکورہ شخص کو اپنی گاڑی سے اتارنے کے بعد گولی مار دی گئی۔
    بشیر احمد سرینگر کے ایچ ایم ٹی علاقہ کے رہائشی ایک ٹھیکیدار تھے اور جیسا کہ انکے لواحقین کا کہنا ہے وہ ایک تو سوپور میں جاری ایک تعمیراتی کام کا جائزہ لینے گئے تھے اور دوسرا انہیں سوپور سے آگے ہندوارہ علاقہ میں رہنے والی گھریلو خادمہ کو لیکر آنا تھا جو گھر گئی ہوئی تھیں۔خان کی بیٹی نے کہا کہ انکے والد نے اپنے پوتے کو گھمانے کیلئے اپنے ساتھ لیا ہوا تھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ جب فورسز پر حملہ ہوا تو انہوں نے اپنی گاڑی میں جارہے بشیر کو روک کر انہیں نیچے اتارا اور پھر انہیں گولی مار دی حالانکہ آئی جی پولس کشمیر وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں اس الزام کی تردید کرتے ہوئے سوگوار خاندان پر ’’جنگجوؤں کے دباؤ میں بیان دینے‘‘کا جوابی الزام لگایا۔انہوں نے حملہ آوروں کی نشاندہی کرنے کا بھی دعویٰ کیا اور کہا کہ لشکرِ طیبہ کے ایک غیر ملکی جنگجو ،اُسامہ، اور ایک مقامی جنگجو عادل نے یہ حملہ کیا ہے اور تیس گولیاں چلائی ہیں جبکہ وہ تیس گولیوں سے بھرا ایک میگزین پیچھے چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔
    پولس کا دعویٰ ہے کہ جب سی آر پی ایف کی ایک ٹکڑی معمول کی ڈیوٹی پر تعینات ہورہی تھی پاس ہی واقع ایک مسجد کی چھت کے نیچے تاک لگائے بیٹھے جنگجوؤں نے حملہ کردیا۔پولس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بشیر احمد بھی ’’کراس فائرنگ‘‘کی زد میں آگئے اور غالباََ جنگجوؤں کی گولی لگنے سے مارے گئے تاہم یہ سوال تشنۂ جواب ہے کہ بشیر کی لاش کی تصویر کس نے اتاری اور اسے انٹرنیٹ پر کس نے وائرل کیا۔پھر بشیر کی لاش جس انداز میں سرِ راہ پڑی ہے اسے دیکھ کر مزید کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
    پولس اور سی آر پی ایف،دونوں، ہی نے تصاویر کھینچے اور انہیں انٹرنیٹ پر جاری کرنے کے بارے میں کوئی بھی جانکاری رکھنے سے انکار کیا ہے تاہم اس سب کے حوالے سے فورسز زبردست تنقید کی زد پر ہیں یہاں تک کہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ تک نے اسکی تنقید کی ہے۔
    یہ واقعہ جنوبی کشمیر میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں ایک معصوم بچے کے مارے جانے کے چند ہی دن بعد پیش آیا ہے۔مذکورہ معصوم کو اپنے والد نے نئے کپڑے دلانے کیلئے بازار لیا ہوا تھا جہاں وہ پھول مسلا گیا اور آج شمالی کشمیر میں ایک معصوم کو اپنے نانا کی لاش چھوڑ کراکیلے واپس لوٹنا پڑا ہے۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS