سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
جموں کشمیر میں کووِڈ-19 کے معاملات کے ساتھ ساتھ،بظاہر، اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے یہاں تک کہ آج یہ تعداد ایک سو سے آگے نکل گئی لیکن دلچسپ ہے کہ مرنے والوں میں سے بیشتر ایسے ہیں کہ جنہیں انکی موت کے بعد کووِڈ-19 کا مریض قرار دیا گیا۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ ایسا کیوں؟۔ حالانکہ ڈاکٹر حضرات کی جانب سے اس سوال کا کوئی واضح جواب سامنے نہیں آپایا ہے تاہم عوامی حلقوں میں یہ چمہ گوئیاں ہورہی ہیں کہ کہیں بعض ڈاکٹروں کی جانب سے صورتحال کا ’’ناجائز استعمال‘‘ تو نہیں کیا جاتا ہے۔
حالانکہ مریضوں کے فوت ہونے کے کئی کئی دن بعد انہیں کووِڈ19- کا شکار قرار دیا جانا کئی دن سے ایک معمہ بنا ہوا ہے تاہم اس بات پر آج تازہ توجہ تب ہوئی کہ جب جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع کے ایک نوجوان کی اسپتال میں موت ہوئی جہاں انہیں ایک سڑک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد پہنچایا گیا تھا اور وہ زخموں کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔ابرار ریاض ایک کمسن نوجوان تھے جو اپنے والد کے ہمراہ چند روز قبل ایک سڑک حادثے میں زخمی ہوگئے تھے۔حادثے کے فوری بعد ایک شخص کی موت واقع ہوگئی تھی جبکہ ابرار اور انکے والد کو زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا تھا۔ ابرار کے والد ابھی زیرِ علاج ہیں جبکہ ابرابر نے آج آنکھیں موندھ لیں جسکے بعد ڈاکٹروں نے انہیں کووِڈ19- پازیٹیو قرار دیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ گذشتہ ہفتے شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقہ میں دو گوجر خاندانوں کی لڑائی میں ایک لڑکا زخمی ہوا،اسپتال پہنچایا گیا جہاں اسکی موت ہوئی لیکن چند دن بعد ڈاکٹروں نے ’’انکشاف کیا کہ وہ کووِڈ19- پازیٹیو تھا‘‘۔مزے کی بات ہے کہ پولس نے بعد ازاں یہ راز منکشف کیا کہ متوفی کے سگے بھائی نے پڑوسی کے ساتھ ہوئی لڑائی کا فائدہ اٹھاکر اپنے بھائی پر خود وار کیا تھا۔
سرینگر کے صدر اسپتال میں حالیہ دنوں ایسے کئی لوگوں کی موت ہوئی ہے کہ جنہیں عام امراض کے علاج کیلئے یہاں بھرتی کیا گیا تھا لیکن انکے جاں بر نہ ہونے کے بعد انکے گھروں کو نہ صرف لاشیں بھیجی گئیں بلکہ یہ جانکاہ خبریں بھی کہ مذکورہ کا کووِڈ19- ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے۔جنوبی کشمیر کے ایک بزرگ شخص کی بھی انہیں حالات میں چند روز قبل موت ہوئی۔انکے لواحقین نے بتایا ’’ہمارے والد کو کورونا نہیں تھا بلکہ انہیں عام امراض کی وجہ سے ہم اسپتال لے گئے تھے جہاں کئی دن تک زیرِ علاج رہنے کے دوران ڈاکٹروں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ کووِڈ19- پازیٹیو ہیں لیکن ہم چوتھا منارہے تھے کہ جب ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ(انکے والد) کورونا وائرس کا شکار رہے ہیں‘‘۔
سڑک حادثے میں زخمی ہوکر لقمۂ اجل بن چکے 24سالہ ابرار ریاض کے لواحقین کا بھی ایسا ہی کہنا ہے۔ انکے ایک رشتہ دار نے بتایا ’’سب کو معلوم ہے کہ وہ صحت مند تھا کہ جب حادثہ ہوا لیکن آج دیکھئے کہ اسکے انتقال کرجانے کے بعد ڈاکٹر اسکے کورونا کا شکار ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں،میرے خیال میں وہ مریضوں کا صحیح علاج کرنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کا ایک آسان بہانہ تلاش کر بیٹھے ہیں‘‘۔ابرابر ریاض کے لواحقین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابرابر کے والد اب بھی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں لہٰذا وہ بہت زیادہ پریشان ہیں نہیں تو وہ عدالت کا دروازہ تک کھٹکھٹا سکتے ہیں۔سرینگر کے ایک بزرگ شہری کا کہنا ہے ’’میں ان دنوں ایسی کئی تعزیتی محافل میں گیا کہ جہاں لوگ بعض چونکا دینے والی باتیں کر رہے تھے،مجھے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے،ہو نہ ہو ڈاکٹر کسی بھی طرح کی جوابدہی سے بچنے کیلئے کووِڈ19- کا سہارا لینے لگے ہوں،اسکی تحقیقات ہونی چاہیئے‘‘۔
صدر اسپتال کے ایک ڈاکٹر،سجاد احمد، کہتے ہیں ہیں’’ پروٹوکول یہ ہے کہ اسپتال میں آںے والے کسی بھی مریض کا پہلے کووِڈ19- ٹیسٹ کیا جانا چاہیئے،رش ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ٹیسٹ کے نتائج ہونے میں دیر لگتی ہے اور تب تک مریض فوت ہوچکا ہوتا ہے‘‘۔ڈاکٹروں کی جانب سے صورتحال کا کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کے الزامات کو احمقانہ کہتے ہوئے تاہم انکا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں اسپتالوں میں ہونے والی اموات کی تحقیقات کرائے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔