گلزار دہلوی:تہذیبی امتزاج کی تجسیم : ریختہ فاؤنڈیشن کا خراج

0

  نئی دہلی : ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی جس معاشرتی، ادبی اور سیاسی عکاسی پر ہم ناز کرتے ہیں، اسے مرتب کرنے والوں کے سلسلے کی ایک اہم اور بہت حد تک آخری کڑی ابھی پچھلے ہفتے ٹوٹی ہے ۔اس کڑی کا نام تھا پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی۔  
شاعر و صحافی فرحت احساس نے ریختہ فاؤنڈیشن کی طرف سے انہیں خراج پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گلزار دہلوی اپنا جسمانی سفر تمام کرکے ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ میں ایک ایسی داستان کے طور پر درج ہوگئے ہیں، جسے جب بھی پڑھا یا سنا جائے گا تو آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہوئی ہماری مشترکہ تہذیب کا تمام تر حسن و جمال مجسم ہوکر سامنے آجائے گا۔
’’گلزار صاحب ایک منفرد تہذیبی تجربے کی حیثیت رکھتے تھے، جس میں ایک شخص نے ایک ایسی  ثقافت کے عناصر اور اقدار کو اپنی ذات میں جذب کیا، جس میں وہ پیدا نہیں ہوا تھا اور کچھ اس طرح جذب کیا کہ دوئی کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ یہ تہذیبی جذب وانجذاب کا عمل لسانی ادبی ہی نہیں مذہبی سطح پر بھی بروئے کار آیا۔ ادب اور زبان کی سطح پر جہاں ان کی وابستگی داغ دہلوی کے شاگردوں بیخود دہلوی اور سائل دہلوی سے رہی، وہیں وہ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمان جیسے علمائے دین اور مجاہدین آزادی سے بھی وابستہ رہے۔اس طرح صاف نظر آتا ہے کہ وہ سانچا جس نے ان کی شخصیت کو تشکیل دیا خود ان کا ہی بنایا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا امتیاز ہے، جو گلزار دہلوی کے سوا اور کسی کو نصیب نہیں ہوا‘‘۔
’’ گلزار دہلوی کی زبان پر اردو کے رس جس کا جو دریا جاری تھا انہوں نے داغ دہلوی کے مزاج اور محاورے کو اختیار کیا، اور اپنے طرز کی رومانی اور رندانہ غزل کہی، جس میں دہلوی زبان کے ماہرانہ استعمال نے گہری کاٹ پیدا کردی تھی۔ انہوں نے اپنی طویل عمر کے دوران ترقی پسند تحریک اور پھر جدیدیت کے زیر اثر شاعری کے سروکار اور لب و لہجے میں آنے والی تبدیلیوں کو دور سے ایک مشاہد کی نظروں سے دیکھا، مگر روش سے نہیں ہٹے ، اور یہ اچھا ہی ہوا کہ پھر وہ گلزار نہ رہ پاتے‘‘۔
  فرحت احساس لکھتے ہیں کہ’’گلزار دہلوی اردو زبان اور تہذیب کی تمام تر نفاستوں اور لطافتوں کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک گزرا ہوا زمانہ بولتا اور گونجتا ہوا سنائی دیتا تھا۔ٹھیٹھ دہلوی اردو کا لہجہ ان پر ختم تھا ،اور اب ہمیشہ کے لئے ناپید ہوگیا۔ ان کی تقریر اور شعر پڑھنے میں جو بے پناہ سحر انگیزی تھی، وہ ہم سب کے عام تجربے کا حصہ ہے مگر ان کا ایک اور خاص رنگ بھی تھا، جو ذاتی محفلوں میں کھلتا تھا۔ مجھے ایسی محفلوں میں شرکت کی خوش بختی حاصل رہی ہے جہاں ان کے چہرے کے تیکھے نقوش سرخ و سفید رنگت اور جسمانی وجاہت آتش سیال کے لمس سے شعلہ بار ہو اٹھتی تھی۔ وہ اپنی محفل شراب کا آغاز عجیب و غریب دعائیہ کلمات سے کرتے تھے، جس سے یہ محفل ایک روحانی جمالیاتی تجربہ بن جاتی تھی۔ اور پھر گلزار صاحب کی گل افشانیٔ گفتار اپنی بے مثال بذلہ سنجی اور حسن مزاج کے ساتھ دیر تک زندہ دلی کے نہ جانے کتنے جہانوں کی سیر کراتی رہتی تھی۔ افسوس کہ ایسے زندہ دل شخص کو مرنا پڑتا ہے یعنی موت میں ذرا بھی زندہ دلی نہیں‘‘۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS