سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
جموں کشمیر پولس کے سابق سربراہ شیش پال وید کی جانب سے وادیٔ کشمیر میں موجود ہندوؤں کو مسلح کردینے کا مشورہ دئے جانے پر یہاں کے لوگوں میں تشویش ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے مشوروں سے اکثریتی اور اقلیتی فرقے کے مابین ماحول خراب ہوسکتا ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک نیا راستہ کھل سکتا ہے۔
شیش پال وید نے ایک انٹرویو میں وادیٔ کشمیر میں موجود ہندوؤں اور ’’خطرے سے دوچار مسلمانوں‘‘ کو ہتھیار چلانے کی تربیت اور ہتھیار دئے جانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے میں، بقولِ وید کے، ہندو اپنا دفاع کرسکیں گے۔ وید،جو جموں کشمیر پولس کے ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں اور چند ماہ قبل ٹرانسپورٹ کمشنر کے بطور نوکری سے سبکدوش ہوچکے ہیں،ایک اعتدال پسند افسر کی شناخت رکھتے آئے وادی میں اقلیتی فرقہ کو مسلح کرنے کا مشورہ دے کر انہوں نے ایک طرح سے اپنا نیا تعارف کرایا ہے۔
جنوبی کشمیر میں چند روز قبل نا معلوم افراد کے ہاتھوں ایک ہندو سرپنچ کا قتل کردئے جانے سے متعلق پوچھے جانے پر سابق پولس چیف نے کہا ہے کہ کشمیر میں رہ رہے ہندوؤں کو خطرہ لاحق ہے اور انہیں ہتھیار چلانے کی تربیت دیکر مسلح کرنا معاملے کا ایک حل ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ مسلح ہوں تو یہ ہندو اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔
اجے پنڈتا نامی سرپنچ کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کردیا ہے تاہم اندازہ ہے کہ انہیں اپنے مذۃب کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی وجوہات کی بنا پر مارا گیا ہے۔قابلِ ذخر ہے کہ علیٰحدگی پسند جنگجو جموں کشمیر میں کسی بھی سیاسی عمل کے مخالف ہیں اور انتخابی سیاست میں شرکت کی پاداش میں ابھی تک کتنے ہی مسلمانوں کو بھی ہلاک کیا جاچکا ہے۔پنڈت کے قتل کو تاہم بعض لوگ مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ وہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ مذکورہ شخص مسلم اکثریتی گاؤں کی پنچایت کے سربراہ چُنے گئے تھے۔
سابق پولس چیف کے غیر متوقع مشورے کو لیکر کشمیر کے اکثریتی سماج میں تشویش ہے کہ کئی لوگوں کا اندازہ ہے کہ ہو نہ ہو مرکزی سرکار نے ایک فیصلہ لے بھی لیا ہو اور شیش پال وید اب محض ایک ماحول بنانے کیلئے ’’مشورہ‘‘ دے رہے ہوں۔غلام قادر نامی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کہتے ہیں ’’یہ سب بہت خطرناک ہے،جیسا کہ وید صاحب نے مشورہ دیا ہے مجھے لگتا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کی طرز پر مسلح جتھے بنانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ایسا ہوا تو یہ ایک بہت خطرناک دور شروع ہونے والا ہے‘‘۔ جیسا کہ وید نے اپنے مشورے کو ’’جوازیت‘‘بخشنے کی کوشش میں کہا ہے جموں صوبہ میں نوے کی دہائی میں ولیج ڈیفنس کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی تھیں۔یہ غیر مسلم طبقے کی اکثریت والے مسلح گروہ تھے جن پر مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آںے والے واقعات انجام دینے کے کئی الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔بشیر احمد نامی ایک وکیل کا کہنا ہے ’’اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو لیکن مجھے لگتا ہے کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے۔وادی میں رہنے والے ہندوؤں کو مسلمانوں کی جانب سے ہر ممکن مدد ملتی رہی ہے لیکن اگر انہیں مسلح کرکے ذاتی دفاع کے نام پر کچھ بھی کرنے کی چھوٹ دی گئی تو نہ جانے صورتحال کیا ہوگی۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خاتمہ تو طے ہے ہی لیکن اسکے علاوہ جو ہوگا وہ فقط تباہ کُن ہی ہوسکتا ہے‘‘۔
کیا وادی میں رہ رہے ہندوؤں کو مسلح کرنے کی تیاری ہورہی ہے،مسلمانوں میں تشویش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS