لندن: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نسل پرستی کے سخت خلاف ہے اور کونسل مختلف ممالک کی مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے کھلاڑیوں
پر نازاں ہے۔
غیر سفید فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت سے پیدا صورتحال کے پیش نظر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی گورننگ باڈی نے کہا ہے کہ کھلاڑیوں کی
جانب سے ممکنہ احتجاج یا مظاہروں سے 'کامن سینس' پالیسی کے تحت نمٹا جائے۔
کامن سینس پالیسی کے تحت معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر کھلاڑیوں کو احتجاج سے روکا نہیں جاتا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جاتی۔ البتہ
کھلاڑیوں کو احتجاج کی اجازت محدود پیمانے پر دی جاتی ہے۔ عام طور پر آئی سی سی کھلاڑیوں کو سیاسی، مذہبی یا نسلی سرگرمیوں پر اظہارِ خیال کی
اجازت نہیں دیتا۔
آئی سی سی کا یہ بیان جارج فلائیڈ کی پولیس حراست میں موت کے بعد زور پکڑنے والی تحریک میں کھلاڑیوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
جارج فلائیڈ کی موت کے بعد کرکٹ کے حلقوں میں بھی نسلی تعصب کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی نے حال ہی میں آئی سی سی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور تمام کرکٹ بورڈز مجھ جیسے کھلاڑیوں
کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو نہیں دیکھ رہے۔ کیا وہ مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ ہونے والی معاشرتی نا انصافی پر نہیں بولیں گے؟"
کونسل کے ترجمان کے مطابق آئی سی سی کو کرکٹ پلیٹ فارم سے کھلاڑیوں کا موقف مناسب انداز میں عوام تک پہنچانے سے اتفاق ہے۔
آئی سی سی کی گورننگ باڈی نے انسدادِ نسل پرستی پالیسی کو پہلی مرتبہ 2012 میں متعارف کرایا تھا۔
واضح رہے کہ ایک مرتبہ انگلینڈ کے فاسٹ بالر جوفرا آرچر کو نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے میچ میں کچھ تماشائیوں نے رنگت کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا
تھا۔ معاملہ اٹھنے پر جوفرا آرچر کے ساتھ تماشائیوں کے رویے پر نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ نے انگلش کرکٹر سے معافی بھی مانگی تھی۔