سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
عالمی صحت تنظیم یا ڈبلیو ایچ او بھلے ہی دنیا کو آنے والے دنوں میں کووِڈ19- کے مزید خطرناک رُخ اختیار کرنے کے امکانات سے خبردار کرنے میں مصروف ہو،کشمیر کے کئی علاقوں میں اس مہلک بیماری کے محض ایک فریب ہونے کی افواہیں ہیں۔اور جب سرینگر میں کووِڈ19- کی تشخیص کیلئے مخصوص دو میں سے ایک لیبارٹری کے نتائج ’’مشکوک ‘‘ ہوگئے ہیں تو لوگوں کی خاصی تعداد کا یہ ’’شک‘‘ ’’پکے یقین‘‘ میں بدلنے لگا ہے کہ کووِڈ 19- کچھ نہیں بلکہ ’’پیسے کمانے کا ایک اسکینڈل‘‘ ہے۔
کئی علاقوں،باالخصوص دیہات،میں لوگوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ کووِڈ19- کوئی مہلک بیماری نہیں بلکہ ایک ’’فریب‘‘ ہے جس سے، ایسا ماننے والوں کے مطابق، لوگوں کو کسی ’’سازش‘‘ کے تحت ڈرایا جارہا ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا ’’پیسہ کمانے‘‘ کیلئے کیا جارہا ہے تو کئیوں کیلئے اسکی دیگر مختلف ’’وجوہات‘‘ ہیں۔ سرینگر کے نٹی پورہ علاقہ،جو ماہ بھر کیلئے ریڈ زون کے بطور محاصرے میں رہا، میں ایک نوجوان لوہار اور انکے ایک بزرگ خریدار کے بیچ اس نمائندے نے یوں مکالمہ ہوتے سُنا ’’یہ بیماری وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ کشمیریوں کو مصروف رکھنے اور انہیں معاشی طور تباہ کرنے کی ایک سازش ہے‘‘۔نٹی پورہ کے ایک گھر میں کووِڈ19- کی دستک ہوئی تھی تاہم بعدازاں اس گھر کے ایک بزرگ اور دو کمسن بچیاں اسپتال سے ٹھیک ہوکے لوٹیں اور یہاں مزید کوئی شخص انفکسن کا شکار نہیں ہوا تاہم اسکے باوجود بھی ماہ بھر کیلئے یہ علاقہ ریڈ زون کے بطور محاصرے میں رہا۔
جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں لوگوں کی اکثریت یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ کووِڈ19- واقعتاََ کوئی بیماری ہے اور اسکا اس علاقے میں وجود ہے۔ یہاں کے ایک میوہ بیوپاری محمد رمضان نے اس نمائندے کو بتایا ’’یہ سب بکواس ہے،اگر یہ بیماری اتنی ہی خطرناک ہوتی اور اتنی ہی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہوتی تو یہاں سینکڑوں لوگ مر گئے ہوتے اور ہزاروں اسپتالوں میں پڑے ہوتے۔میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری ادارے کسی خاص مقصد کے ساتھ لوگوں میں ڈر بٹھا رہے ہیں‘‘۔ حالانکہ شوپیاں میں زائد از چار سو لوگ اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے کم از کم پانچ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ یہاں کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو علاقے میں گشت کررہی افواہوں کا اعتراف ہے اور وہ کہتے ہیں’’ یقیناََ کچھ لوگوں کو اب بھی یقین نہیں آرہا ہے اور اس وجہ سے ہمیں انسدادِ کووِڈ19- کی کوششوں تک میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔ہم لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو تباہ کرتی آرہی اس بیماری کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بچاؤ اقدامات کریں‘‘۔پلوامہ،کولگام اور اننت ناگ اضلاع میں بھی کووِڈ19- کے ’’فریب‘‘ ہونے کی افواہ گرم ہے۔
سرینگر میں کووِڈ19- کے مریضوں کیلئے مخصوص کردہ امراضِ سینہ کے اسپتال (چسٹ ڈزیزیز اسپتال) میں این ڈی ٹی وی کے ایک سینئر صحافی کو کووِڈ19- پازیٹیو قرار دئے جانے کے اگلے ہی دن انکے میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ سرینگر کی لیبارٹری میں کووِڈ19- نگیٹیو ثابت ہونے کے بعد اس طرح کی افواہیں مزید پھیلنے لگی ہیں ۔ جنوبی کشمیر میں کئی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کووِڈ19- کا ’ڈر بٹھانے‘‘ کا مقصد جنگجو مخالف آپریشن کے دوران لوگوں کو گھروں تک محدود کئے رکھنا ہے۔ دلچسپ ہے کہ وادی میں جنگجو مخالف آپریشنز کے دوران عام لوگ جنگجوؤں کی مدد کو آںے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور یہ سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے ایک بڑا چلینج بنا ہوا تھا تاہم کووِڈ19- کی وجہ سے لوگ گھروں میں بند ہیں اور فورسز کیلئے جنگجو مخالف آپریشن کرنا آسان ہوگیا ہے۔ قابلِ ذخر ہے کہ جنوبی کشمیر میں گذشتہ تین دنوں میں تین الگ الگ چھاپہ مار کارروائیوں میں چودہ جنگجوؤں کو مار گرایا گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں جموں کشمیر میں کووِڈ19- متاثرین کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوتے دیکھا جارہا ہے تاہم مذکورہ صحافی کے متضاد ٹیسٹ رپورٹس آنے کے بعد شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ویڈیوز میں کئی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ اُنکا نمونہ تک نہیں لیا گیا ہے جبکہ انہیں کووِڈ19- پازیٹیو قرار دیا جاچکا ہے۔
محکمہ صحت میں ایک اعلیٰ افسر نے کہا ’’چونکہ تالہ بندی طویل ہوگئی ہے اور لوگ گھروں میں بند ہیں جبکہ انکا روزگار بھی متاثر ہوا ہے اسی لئے وہ کووِڈ19- کو نظرانداز کرنے لگے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ لوگ تالہ بندی کا جلد خاتمہ ہوتے دیکھنے کیلئے ایسی افواہیں پھیلارہے ہوں لیکن انہیں سمجھنا ہوگا کہ سب سے پہلے زندگی آتی ہے، کووِڈ19- تازہ انسانی تاریخ کا تباہ کن سچ ہے اور اسے نکارنے کا مطلب اس تباہی کو گھر لے آنا ہوگا جس سے لوگوں کو بچنا چاہیئے‘‘۔
کیا کووِڈ-19 محض ایک ’’فریب‘‘ ہے،کشمیر میں افواہوں کا بازار گرم،کورونا کا ملی ٹینسی کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS