سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
جموں کشمیر میں آج تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر سبھی سرکاری دفاتر میں اڈھائی ماہ کی طویل مدت کے بعد کام کاج بحال ہوگیا۔ تاہم کئی دفاتر میں ملازمین کو حاضری نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ عام ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت پر لگاتار پابندی ہونے کی وجہ سے وہ دفاتر نہیں نہیں پہنچ پائے۔ اس دوران یہاں کووِڈ 190- کے پھیلاؤ میں تیزی آئی ہے۔
دنیا کے دیگر علاقوں کی ہی طرح جموں کشمیر میں بھی کووِڈ19- سے بچاؤ کی احتیاطی تدبیر کے بطور معمولاتِ زندگی ٹھپ ہوگئی تھیں یہاں تک کہ تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر بھی بند ہوگئے تھے۔5 جون کی شام کو تاہم سرکار کے محکمۂ انتظامِ عامہ نے ایک اچانک حکم نامہ میں سبھی ملازمین کو 6 جون سے ڈیوٹی پر لوٹنے کی ہدایت دی۔ اس حکم نامہ میں کہا گیا تھا کہ سبھی محکموں کے افسران اور اہلکار اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوجائیں گے تاہم اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔حالانکہ چند روز قبل سرکار نے وسط جون میں اسکولوں کی بحالی کا منصوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم اسکی عوامی سطح پر تنقید ہونے، اور پھر مرکزی سرکار کے مداخلت ، کے بعد سرکار نے پیشرفت کرنے سے احتراز کیا اور کہا کہ تعلیمی اداروں کی بحالی کا ابھی کوئی حتمی فیصلہ لینا باقی ہے۔
اڈھائی ماہ کے طویل عرصۃ کے بعد آج کئی سرکاری دفاتر کا دورہ کرنے پر وہاں کسی حد تک چہل پہل دیکھنے میں آئی تاہم کئی ملازمین غیر حاضر تھے جنکے بارے میں انکے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ انکے رہائشی علاقے ریڈ زونز قرار پائے ہیں یا پھر انہیں دفتر پہنچنے کیلئے ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوسکا ہے۔سرینگر میں محکمہ سماجی بہبود کے ایک دفتر کے ملازمین نے اپنے غیر حاضر ساتھیوں کے بارے میں بتایا کہ انہیں ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوسکا ہے اور وہ اسی لئے ڈیوٹی پر حاضر ہونے سے قاصر ہیں جبکہ تکنیکی تعلیم کے ایک دفتر میں کم از کم دو ملازمین کے بارے میں پتہ چلا کر انکے ہائشی علاقے ریڈ زون قرار پاچکے ہیں اور وہ اسی لئے گھر میں ہیں۔
ملازمین کو ڈیوٹی پر آنے کا حکم ملنے کے باوجود ٹرانسپورٹ کو بحالی کی اجازت نہ دئے جانے کی کئی ملازمین نے تنقید کی اور کہا کہ ایک طرف سرکاری حکم سے ہی ٹرانسپورٹ بند ہے اور دوسری جانب سے دفاتر کو کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ نذیر احمد (یہ فرضی نام ہے) نامی ایک سینئیر اسسٹنٹ نے کہا ’’سبھی ملازمین کے پاس اپنی گاڑیاں تو نہیں ہیں،دفاتر کو کھول دئے جانے سے قبل سرکار کو ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا چاہیئے تھا‘‘۔
سرکاری دفاتر کی بحالی کا فیصلہ ایسے میں لیا گیا ہے کہ جب پورے جموں کشمیر میں کووِڈ19- کا پھیلاؤ تشویشناک حد تک رفتار پکڑ چکا ہے۔حالیہ دنوں میں ہر دن کووِڈ19-کے ڈیڑھ یا پونے دو سو کے قریب نئے معاملات سامنے آرہے ہیں جبکہ اس مہلک بیماری کے بہانے مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
موں وکشمیر حکومت کے حکمنامے کے تحت ہفتہ کے روز زائد از اڑھائی ماہ بعد اس یونین ٹریٹری میں تمام سرکاری دفاتر باقاعدگی سے کھل گئے تاہم جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوردراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین اپنے اپنے دفاتر میں حاضر ہونے سے قاصر رہے وہیں تمام تعلیمی اداروں میں سناٹا چھایا رہا۔
یار رہے کہ حکومت کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری ایک حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ 6 جون 2020 سے تمام افسران اور تمام سطح کا عملہ اپنے اپنے دفاتر میں باقاعدگی سے حاضر ہوں گے۔
تاہم عمر رسیدہ ملازموں، حاملہ خواتین اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ملازمین کو زیادہ احتیاط سے کام لینے کی تاکید کی گئی ہے۔