سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
وادیٔ کشمیر کے تاجروں اور صنعتکاروں نے جموں کشمیر کی انتظامیہ پر مرکز کے سامنے جموں کشمیر کی اقتصادی حالت کی صحیح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کی ایک مشترکہ انجمن ’’جوائنٹ آرگنائزیشنز آف انڈسٹریز ٹریڈ اینڈ کامرس‘‘ کا دعویٰ ہے کہ گئے سال 5 اگست کو دفعہ کا دعویٰ ہے کہ گئے سال 5 اگست کو دفعہ 370کے خاتمہ کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال سے لیکر ابھی کووِڈ 19-کی وجہ سے جاری تالہ بندی تک کشمیری تاجروں کو 30000کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔
مرکزی سرکار سے خصوصی معاونت کی اپیل کرتے ہوئے مذخورہ بالا انجمن نے جموں کشمیر کی موجودہ انتظامیہ پر مرکزی سرکار کے سامنے یہاں کی اصل صورتحال رکھنے میں ناکام رہنے کا الزام لگاتے ہوئے مرکز سے کشمیری تاجروں کی حالتِ زار کے تئیں آنکھیں بند کرنے کا شکوہ ظاہر کیا۔ انجمن کے ایک عہدیدار اور نامور صنعت کار عاشق شیخ اور اقبال ترمبو نے دیگر کئی تاجر لیڈروں کی موجودگی میں بتایا کہ جہاں ہر جگہ دو ایک ماہ سے کووِڈ 19-کی وجہ سے تالہ بندی جاری ہے وہیں وادیٔ کشمیر میں قریب 10 ماہ سے ہی سب کچھ بند پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد تو حالات اور بھی زیادہ خراب ہو گئے لیکن دیکھا جائے تو جموں کشمیر، باالخصوص وادی میں، گذری تین دہائیوں سے تجارت و صنعت کے حالات انتہائی خراب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق گذری تین دہائیوں کے دوران وادیٔ کشمیر میں کم از کم 3000 دنوں کا لاک ڈاون یا تالہ بندی رہی ہے اور اس دوران یہاں کی تجارت کو لاکھوں کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
جموں کشمیر کی موجودہ انتظامیہ پر مرکزی سرکار کے سامنے مقدمہ بیان کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگاتے ہوئے تجارتی انجمنوں کے نمائندگان کا کہنا ہے ’’ایسا ہوتے دیکھ کر ہم از خود مرکزی وزیرِ داخلہ سے مارچ میں ملنے چلے گئے جنہوں نے نہ صرف ہماری بات سُنی بلکہ کشمیری تاجروں کو درپیش صورتحال سے آگاہ ہونے کا بھی اعتراف کیا لیکن جب حال ہی میں 20لاکھ کروڑ روپے کے ایک پیکیج کا اعلان ہوا تو اس میں کشمیر کیلئے کچھ بھی نہیں تھا‘‘۔ ان تاجروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کی تجارت کا دیگر ریاستوں یا علاقوں کی اقتصادیات کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہاں کے حالات انتہائی کٹھن اور مختلف ہیں۔
عاشق شیخ نے کہا ’’دیگر ریاستوں میں کووِڈ 19-کی وجہ سے دو ماہ سے تالہ بندی ہے لیکن ہمیں دیکھئے کہ یہاں دہائیوں سے روز ہی ہڑتال اور حالات خراب ہونے کی وجہ سے تالہ بندی رہتی آئی ہے‘‘۔تاجروں کا کہنا ہے کہ تالہ بندی کے بعد جہاں کاروبار کی بحالی ایک چلینج ہے وہیں حالات یہ ہیں کہ بیشتر دکانداروں اور کاروباریوں کیلئے یہ بحالی شائد ممکن بھی نہ ہوسکے کیونکہ انکی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے۔