پٹنہ: برصغیر کے مشہور طنزو مزاح نگارمجتبی حسین کے انتقال پر زبردست رنج و غم اور تعزیت کا اظہیار کرتے ہوئے بہار اردو
اکیڈمی کے سکریٹری اور بہار کے سابق بیورو کریٹ مشتاق احمد نوری نے کہا کہ ان کے انتقال سے طنز و مزاح کے میدان میں ایسا خلاء پیدا ہوگیا ہے
جس کا پر ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
انہوں نے آج جاری تعزیتی بیان میں کہا کہ پدم شری مجتبیٰ حسین طنز و ظرافت کے آخری تاجدار تھے ان کے ساتھ ایک سنہرے عہد کا خاتمہ
ہوگیا۔ ان سے پہلی ملاقات 1974میں ہوئی تھی جب وہ شفیع مشہدی کے افسانوی مجموعہ شاخِ لہو کا اجرا کرنے پٹنہ تشریف لائے تھے۔ ان کے پہلے
جملے نے وہ داد بٹوری کہ محفل لالہ زار ہوگئے۔ انہوں نے کہا”میں شفیع مشہدی کو تب سے جانتا ہوں جب س۔ش۔مشہدی کے نام سے کچھ عین
غین قسم کی کہانیاں لکھا کرتے تھے“
بعد میں تفصیلی ملاقات رہی آخری ملاقات 2018 میں ہوئی جب بہار اردو اکادمی نے انہیں ایک لاکھ ایک ہزار کے ایوارڈ سے نوازا۔بیماری کی وجہ سے
وہ تشریف نہیں لا سکے۔ حیدر آباد میں انہوں نے وہ پذیرائی کی کہ بیان سے باہر ہے۔ ان کی کار ہر گھڑی میرے لئے تیار رہتی جس کی مدد سے میں
مظہرالزماں خان اور محمد یٰسین کی مزاج پرسی کو جاسکا۔ ایک دن لنچ پر اپنے گھر مدعو کیا اور انیکوں سالن کے ساتھ ان کی بیگم نے بیگن بگھار سے
ضیافت کی۔ انہوں نے پروفیسر بیگ احساس کی صدارت میں میرے اعزاز میں ایک فنکشن بھی کیا۔ انہوں نے اپنی کئی کتابیں بھی عنایت کیں انتہا یہ ہے
انہوں نے میرے ہوٹل کا بل بھی مجھے ادا نہیں کرنے دیا۔
نثری طنزومزاح کے وہ شہنشاہ تھے اور بات سے بات پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ہندوپاک میں وہ ظرافت کے آخری تاجدار تھے ان کی جگہ
آسانی سے نہیں بھری جائے گی۔ ان کی درجنوں کتابیں اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہے۔ مجتبی کے یہاں پھوہڑپن نہیں تھا ان کا مزاح ایسا تھا کہ آپ
زیرلب تبسم پر مجبور ہوجائیں کبھی کبھی ان کی تحریر کی شوخی قہقہے لگانے پر مجبور کردیتی تھی۔ ان کا جاپان کا سفر نامہ غضب کا ہے ہرسطر
مسکرانے پر مجبور کرتی ہے
وہ برابر فون کرتے اور خیریت دریافت کرتے۔ اب ایسی بے لوث محبت کرنے والے لوگ نہیں رہے۔
طنزو مزاح کے باب میں مجتبی حسین کے انتقال سے زبردست خلا پیدا ہوگیا: مشتاق احمد نوری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS