سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
اب کے برس کووِڈ–19 نے انسانوں اور اقتصادیت کے ساتھ ساتھ رمضان کی رونقوں کو بھی کھا گیا اور کشمیر میں لوگوں کو اب یہ غم کھائے جارہا ہے کہ وہ عید کی نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔
کشمیر میں پولس اور انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ مہلک کووِڈ-19 کے مزید پھیلنے کے خدشے کے پیشِ نظر کہیں پر بھی عید نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ لوگوں کو گھروں میں رہنا چاہیئے۔رمضان کا آخری جمعہ،جسے جمعتہ الوداع بھی کہتے ہیں،لگاتار نو واں جمعہ گذرا کہ جب پولس نے وادیٔ کشمیر میں کہیں پر بھی جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی اور لوگوں نے گھروں میں عبادت کی حالانکہ یہ بات لوگوں کو اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے۔
کووِڈ 19 وبأ پھوٹ پڑنے پر انتظامیہ نے مارچ میں لوگوں کے مسجد جانے پر پابندی عائد کرکے انہیں گھروں کے اندر نماز پڑھنے کیلئے کہا تھا اور تب ہی سے کشمیر کے طول و ارض میں قائم مساجد سونی سونی ہیں۔واضح رہے کہ جموں کشمیر میں کووِڈ 19 کے مریضوں کی تعداد پندرہ سو اور اس بیمارے کے بہانے لقمۂ اجل بننے والوں کی تعداد بیس سے اوپر ہوگئی ہے۔ رمضان کے مہینے اور باالخصوص شبِ قدر اور جمعتہ الوداع کو ہزاروں لوگ بعض خاص زیارت گاہوں اور مرکزی مساجد میں عبادت کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں لیکن اب کے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
سرینگر کے چھانہ پورہ علاقہ میں دو نوجوانوں نے بتایا کہ مساجد کو خالی اور سونا سونا پاکر انکا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ماہ سے مسجد نہ جا پانے پر انہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے انہیں بد ترین قید میں رکھا گیا ہو۔ خالد نامی ایک نوجوان نے کہا’’عبادت تو ہم نے گھروں کے اندر رہتے ہوئے بھی کی لیکن وہ مسجد جیسا سکون کہاں‘‘۔ سید شائستہ نامی ایک نوجوان خاتون نے کہا ’’صبح صبح مساجد میں تلاوت ہوتے سنکر کتنا اچھا لگتا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی علاقۂ غیر میں منتقل ہوچکے ہوں‘‘۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے محلے کی مسجد سے تکبیر اور درودو اذکار کی آواز سُننے کو ترس گئی ہیں اور یہی حال اُنکے گھر کے مردوں کا ہے۔
بشیر احمد نامی ایک دکاندار کا کہنا ہے ’’میں ہر سال شبِ قدر کے دن درگاہ حضرتبل یا مرکزی جامع مسجد جانے کو ترجیح دیتا تھا لیکن اب کے برس رمضان کی سبھی رونقیں غائب رہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں غم ہے کہ پولس عید کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے گی۔ وہ کہتے ہیں ’’نہ عید کی خوشیاں ہیں اور نہ ہی اسکا احساس ہی جاگ پاتا ہے، آخر جب عید کی نماز ہی نہ پڑھ سکیں تو پھر عید ہی کیسی‘‘۔
مسلمانوں کے سال میں فقط دو تہوار ہوتے ہیں ۔ عیدالفطر یا چھوٹی عید ماہِ رمضان کے اختتام پر آتی ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ یہ تہوار رمضان کا شکرانہ ہے اور اس دن کھلے میدانوں (عید گاہوں) میں پڑھی جانے والی دو رکعت نماز بھی دراصل شکرانے کی ہی نماز ہے۔ ابو علی نامی ایک شخص کا کہنا ہے ’’عید خاص پکوان بنانے اور نئے کپڑے پہننے سے نہیں ہے بلکہ دو رکعت کی نماز انتہائی اہم ہے اور پھر یہ نماز جماعت کے بغیر گھر میں نہیں ہوسکتی ہے۔سچ پوچھیئے کہ اگر عید گاہ جانے کی اجازت نہ ملی تو پھر عید ہے ہی نہیں‘‘۔
عام حالات میں مختلف چھوٹی بڑی مساجد جمعتہ الوداع کے روز ہی نمازِ عید کے اوقات کا اعلان کرتی تھیں جبکہ بعض بڑی مساجد میں نمازِ عید کے وقت سے متعلق اخباروں میں اشتہار دئے جاتے تھے۔ اب کے اسکے برعکس مساجد کمیٹیاں سوشل میڈیا پر یہ اعلان کر رہی ہیں کہ انکے یہاں عید کا کوئی اجتماع نہیں ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مساجد کمیٹیوں کو سخت ترین ہدایات دی گئی ہیں کہ نمازِ عید کا اہتمام نہ کریں کیونکہ اس سے سوشل ڈسٹینس ختم ہونے اور کووِڈ 19 کے مزید پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ سوموار کو ضلع کمشنر سرینگر نے ایک مفصل میٹنگ، جس میں پولس اور دیگر کئی محکموں کے حکام شریک تھے،کے بعد ایک حکم نامہ جاری کرکے 31 مئی تک سخت ترین تالہ بندی کی ہدایت دی۔ حکمنامہ کے مطابق کسی بھی شخص کو تالہ بندی کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب پائے جانے پر جُرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
کشمیری مسلمانوں کو نمازِ عید سے محروم رہنے کا غم کھائے جارہا ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS