کشمیر کی میوہ صنعت برباد،ایک لاکھ ٹن سیب سردخانوں میں سڑ جانے کو تیار

    0

    سرینگر:صریرخالد،ایس این بی
    کرونا وائرس نے دنیا بھر میں انسانی جانوں کے علاوہ کن کن شعبہ جات کو تہہ و بالا کردیا ہے اسکا تجزیہ کرنا قبل از وقت ہے تاہم کشمیر کی میوہ صنعت کی تباہی ابھی سے عیاں ہے۔ کشمیر میں سیب کی کاشتکاری سے لیکر اسکے کاروبار تک کی ساری ’’چین‘‘ تقریباََ پوری طرح برباد ہوچکی ہے جبکہ اخروٹ جیسے خشک میوے کے کاروباریوں کی کمر بھی ٹوٹ رہی ہے۔
    سیب کے کاشتکاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تالہ بندی کی وجہ سے وہ بروقت باغات کی دیکھ بال، دوا پاشی اور باقی لوازمات پورا کرنے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف بے موسم برسات،برفباری اور ژالہ باری انہیں پریشان کئے ہوئے ہے۔ بیوپاریوں اور میوے کے کاروبار کے ساتھ دوسرے طریقوں سے منسلک لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ملک گیر تالہ بندی،سڑکوں کی بندش اور لوگوں کی قوتِ خرید کا خاتمہ انکی دنیا میں اندھیرا کئے ہوئے ہے۔ سرکاری حکام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وادی میں ابھی گذشتہ سال کے قریب ایک لاکھ ٹن سیب مختلف سرد خانوں میں پڑے ہیں اور ایک طرف اتنا سارا یہ میوہ سڑنے کو تیار ہے تو دوسری جانب اسکے مالکان کو اعلیٰ تیکنالوجی پر مبنی ان سرد خانوں کی جانب کرایہ کے نام پر خطری رقومات ادا کرنی ہیں۔
    سیب کی کاشتکاری کشمیر میں ایک بڑی صنعت کے بطور ترقی پاچکی ہے اور یہاں کے لوگوں نے اُن سبھی علاقوں میں چاول کے کھیتوں کو سیب کے باغات میں بدل دیا ہے کہ جہاں یہ میوہ اُگایا جاسکتا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ سرکار کی ترغیب پر کاشتکاروں کی جانب سے باغات میں فصل بڑھانے اور بازار میں بہتر قیمتیں حاصل کرنے کیلئے جدید تیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے جس میں بار بار کی دواپاشی وغیرہ اور میوے کو سرد خانے میں رکھ کر اسے مناسب وقت پر منڈیوں میں لے آنا شامل ہے۔ ایسے میں کئی انٹرپرینئرس سے کروڑوں روپے صرف کرکے اعلیٰ تیکنالوجی والے سرد خانے قائم کئے ہوئے ہیں جہاں کاشتکار یا بیوپاری اپنا مال ذخیرہ کرکے رکھتے ہیں اور بازار میں طلب بڑھنے پر اسے منڈیوں میں لے آتے ہیں۔
    بہترین اور وافر مقدار میں سیبوں کی کاشت کیلئے مشہور جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں محمد اشرف نامی ایک میوہ بیوپاری کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر سے شمالی کشمیر تک کے سرد خانوں میں سیب کی لاکھوں پیٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں منڈیوں میں طلب بڑھنے لگی تھی کہ کرونا وائرس نے ملک گیر تالہ بندی کرادی،گاڑیوں کا چلنا بند ہوگیا اور بازار میں میوے کی طلب یکدم ختم ہوگئی۔
    گو سرکار نے حال ہی میوہ لیجانے والے ٹرک چلانے کی اجازت تو دی ہے لیکن بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ایک تو ٹرک والوں نے اچانک سو ڈیڑھ سو فیصد زیادہ کرایہ طلب کرنا شروع کیا ہے تو دوسری جانب بیرون جموں کشمیر کی منڈیوں میں میوے کی کوئی طلب نہیں ہے۔ محمد اشرف نے بتایا ’’میں نے دلی کی آزاد پور منڈی میں اپنے بیوپاری سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ دو ایک گھنٹوں کیلئے منڈٰ میں آتے تو ہیں لیکن خریداری کیلئے دور دور تک کوئی گاہک نہیں ہے‘‘۔ قیصر احمد نامی ایک باغ مالک کا کہنا ہے ’’خریدار آئے گا بھی کہاں سے جب لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور گھر سے نکلنا تک ممکن نہیں ہے‘‘۔
    جنوبی کشمیر میں ایک سرد خانے کے ایک ملازم نے کہا ’’ہم زیادہ سے زیادہ سات ساڑھے سات ماہ تک میوے کو اچھی حالت میں رکھ سکتے ہیں لیکن یہ وقت ختم ہورہا ہے۔ اب نہ ہمارے کولڈ اسٹورز میں یہ میوہ محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ ہی منڈیوں میں کیونکہ گرمی بہت بڑھنے لگی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ میوہ بیوپاریوں کی حالت دیکھ کر انہیں ڈر ہے کہ وہ کرایہ نہ دے پانے کے ڈر سے کہیں اس میوہ کو نہ اٹھانے میں ہی عافیت نہ سمجھنے لگیں۔  انہوں نے کہا ’’اگر میوہ وقت پر نہ بِکا تو ہمارے اسٹورز کا پیسہ ملنا بھی محال ہے اور اگر ایسا ہوا تو مجھے نہیں لگتا ہے کہ ہمارے یونٹ کام کرپائیں گے،ڈر ہے کہ ہمارا کام بند ہی نہ ہوجائے‘‘۔ اندازہ ہے کہ قریب  23 میٹرک ٹن کی پیداوار کا  4 فیصد سرد خانوں میں ذخیرہ کیا ہوا ہے۔
    اس طرح کے مسائل فقط سیب کے ساتھ ہی نہیں ہیں بلکہ اخروٹ کے بیوپاریوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگرچہ ثابوت اخروٹ کا کاروبار کرنے والوں کو تھوڑی راحت یہ ہے کہ یہ میوہ بہت جلد خراب نہیں ہوتا ہے تاہم اخروٹ توڑ کر اسکی گری کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔جنوبی کشمیر میں ملہ ٹریڈرس نام سے ایک فرم کے مالک منظور احمد کا کہنا ہے ’’ہم سردیوں میں اخروٹ کی گری نکلواتے ہیں اور پھر اسے جموں، دلی اور دیگر منڈیوں کو بھیجتے ہیں۔ ابھی ہمارا کام شروع ہونے ہی والا تھا کہ یہ افتاد آن پڑی، اکیلئے میرے یہاں لاکھوں روپے کی گری سڑنے کو تیار ہے اور ہمارے سے کئی زیادہ بڑی فرمیں ایسی ہیں کہ جنکے یہاں لاکھوں کروڑوں روپے کا مال گویا سڑ رہا ہے۔تالہ بندی اگر ختم بھی ہوتی ہے مجھے نہیں لگتا ہے کہ ہمارے حالات بدلیں گے کیونکہ لوگوں کی قوتِ خرید ختم ہوچکی ہے‘‘۔
    کشمیر کی میوہ صنعت پر یہ حالیہ دنوں میں پہلی مار نہیں ہے بلکہ گئے سال دفعہ  370 اور 35-Aکو ختم کرکے سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں بدل دئے جانے کے ردِ عمل میں مہینوں بند رہنے کی وجہ سے اس صنعت کو پہلے ہی بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ پھر بے موسم کی برسات،ژالہ باری اور شدید برفباری نے بھی کاشتکاروں کے خلاف اپنی اپنی تابڑ توڑ باری کھیلی۔ سرکاری طور مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق گئے سال کی برفباری نے  38 فیصد درختوں کو نقصان پہنچایا ہے جسکی وجہ سے پیداوار ایک عرصہ تک متاثر رہ سکتی ہے۔
    اتنا ہی نہیں بلکہ گئے سال طلب اور دستیابی کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے سیب کے نرخ مقابلتاََ کم رہے جبکہ ہڑتالوں اور بند کی وجہ سے مناسب وقت پر مال منڈیوں میں نہیں پہنچایا جاسکا۔
    کاشتکاروں اور میوہ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں کوئی مناسب سرکاری امداد ہی انکے دکھوں کا ’’کچھ تو‘‘مداوا کرسکتی ہے لیکن انہیں ایسے کسی سرکاری اقدام کی بہت زیادہ توقع نہیں ہے۔ جیسا کہ مختار احمد نامی ایک صحافی کا کہنا ہے ’’کرونا نے جو حالت دنیا کی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے من میں سوال آتا ہے کہ سرکار اگر پیکیج دے گی بھی تو کس کس کو اور کہاں کہاں دیگی،یہ ایک بہت بُرا وقت ہے، سرکار کی ذمہ داری تو ہے لیکن میرے خیال میں فقط قدرت ہی کچھ کرسکتی ہے‘‘۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS